قومی اسمبلی کے اجلاس میں تاخیر کا اقدام آئینی ہے یا غیر آئینی؟

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے والے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے ایک اور فیصلے کے باعث موجودہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

قومی اسمبلی کے 16 اپریل کو ہونے والے اجلاس کا شیڈول اچانک تبدیل کر کے 22 اپریل کو کر دیا گیا ہے (اے ایف پی)

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے والے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے ایک اور فیصلے کے باعث موجودہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

قومی اسمبلی کے 16 اپریل کو ہونے والے اجلاس کا شیڈول تبدیل کر کے 22 اپریل کو کر دیا گیا ہے۔ یہ تبدیلی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دن بھی پورے ہونے کو ہیں۔

ایک طرف جہاں اپوزیشن کا یہ کہنا ہے کہ ’تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد ڈپٹی سپیکر اجلاس ملتوی کرنے کا اختیار نہیں رکھتے‘ وہیں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر یا سابق سپیکر اسد قیصر کے مستعفی ہونے کی صورت میں قائم مقام سپیکر قاسم سوری اس عمل کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟

اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے سے متعلق 2007 میں جاری ہونے والے قومی اسمبلی میں کارروائی اور طریقہ کار کے قاعدہ نمبر 49 کی شق 2 ب کے مطابق سپیکر ’اگر مناسب سمجھے تو اسمبلی کا کوئی اجلاس اس وقت یا تاریخ سے کسی مختلف وقت یا تاریخ پر طلب کر سکتا ہے۔‘

قومی اسمبلی کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں بھی اسی قاعدے کا حوالہ دیا گیا ہے۔

جبکہ قاعدہ 12 کی شق دو ’نوٹس موصولی کی تاریخ سے سات دن کے اختتام کے بعد پہلا یوم کار ہو‘ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے سات دن کے بعد پہلے ورکنگ ڈے یا یوم کار کو ہو گا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد آٹھ اپریل 2022 کو موصول ہوئی جس کے سات دن 15 اپریل 2022 کو مکمل ہو رہے ہیں۔ قومی اسمبلی حکام نے بتایا ہے کہ سات دن مکمل ہونے کے بعد پہلا یوم کار 16 اپریل کو بنتا ہے جس دن قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا۔

لیکن بعد میں اس شیڈول کو تبدیل کر کے 22 اپریل کر دیا گیا۔

پارلیمانی امور کے ماہر ظفراللہ خان نے اس اقدام کو قوانین کی خلاف ورزی اور پارلیمان کی توہین قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت قومی اسمبلی سپیکر کے بنا ہے جبکہ ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہو چکی ہے۔ جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں اس کے مطابق 16 اپریل کو ہی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی چاہیے تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’تحریک جمع ہونے کے بعد ڈپٹی سپیکر کی جانب سے اجلاس کے شیڈول میں تبدیلی مناسب نہیں اور نہ ہی  ڈپٹی سپیکر کو اس طرح کے بڑے اور اہم فیصلےکرنے چاہیے اور نہ ہی انہیں یہ اختیار حاصل ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ڈپٹی سپیکر سات روز مکمل ہونے سے قبل بھی الیکشن کرواسکتے ہیں۔ اس لیے فوری طور پر سپیکر کا انتخاب ہونا چاہیے جبکہ آئندہ اجلاس میں سپیکر کے اجلاس کے بعد پہلا ایجنڈا ڈپٹی سپیکر کےخلاف تحریک عدم اعتماد ہونا چاہیے۔

سیاسی امور کی ماہر عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’قومی اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل کو منعقد ہونا بنتا تھا جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔‘ انہوں نے کہا ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف نے ماضی میں بھی آئین اور قوانین کو اپنی مرضی سے استعمال کیا ہے۔ وزیراعظم کے عدم اعتماد سے متعلق آرٹیکل 95 کی جس طرح خلاف ورزی کی گئی اس سے آئین اور قوانین کو پامال اور پارلیمان کو مذاق بنایا گیا جو کہ افسوسناک ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے دوران پارلیمان معرکہ اور جنگ و جدل کا محاذ بن گئی ہے جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔‘

سابق وزیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے عمل کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آئین کہتا ہےکہ سپیکر کی عدم موجودگی میں ڈپٹی سپیکر قائم مقام سپیکر کے فرائض سرانجام دیتا ہے، اس میں غیر آئینی اقدامات کی کوئی بات نہیں، پارلیمنٹ رولز کے مطابق چلتی ہے اور رولز میں یہ سب واضح ہے جس طرح قائم مقام چیف جسٹس اور صدر مملکت سے متعلق 1973 کا آئین کہتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل 1985 میں جب اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی فخر امام کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو انہوں نے آئین و قوانین کے مطابق تاخیر نہ کرتے ہوئے اجلاس کا انعقاد کروایا۔ فخر امام کے خلاف 26 مئی 1986 میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی اور وہ تحریک کامیاب ہوئی اور دو روز کے وقفے کے بعد 29 مئی کو ہی سپیکر کا انتخاب ہوا جس میں حامد ناصر چٹھہ کامیاب ہوکر قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا ہوا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ میں  ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا قومی اسمبلی کا اجلاس تاخیر سے بلانے کے خلاف مقدمے کی سماعت عدالت کا لارجر بینچ کر رہا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس بابر ستار اس تین رکنی بینچ میں شامل ہیں۔

 مسلم لیگ ن کے مرتضیٰ جاوید عباسی کی جانب سے پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ 13 اپریل کا سرکلر جس میں اجلاس 22 اپریل تک ملتوی کیا گیا آئین سے متصادم ہے، سیکریٹری پارلیمانی افئیرز اور سیکریٹری اسمبلی کو 16 اپریل کو اجلاس بلانے کی ہدایت کی جائے اور ڈپٹی سپیکر کو سپیکر کے اختیارات استعمال کرنے سے روکا جائے۔

ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، سیکریٹری پارلیمانی امور اور سیکریٹری اسمبلی درخواست میں فریق ہیں۔ تاہم جمعہ کو سماعت میں حکومت کو کوئی فوری ریلیف نہیں مل سکا اور عدالت نے سماعت 22 اپریل کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے ملتوی کر دی ہے۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ بینچ اب فیصلہ کرے گا کہ ڈپٹی سپیکر کا یہ اقدام پارلیمانی و آئینی قوانین کے مطابق ہے یا اس کے برعکس ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈپٹی سپیکر کے حالیہ دو بڑے فیصلے عدالتوں کے پاس پہنچے ہیں جنہوں نے اب یہ تعین کرنا ہے کہ دوسرا اقدام بھی پہلے کی طرح غیرآئینی ہے یا نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست