نئی کابینہ کی حلف برداری، کون کون شامل؟

وزیر اعظم شہباز شریف کی 37 رکنی وفاقی کابینہ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

صدر مملكت ڈاكٹر عارف علوی كی علالت كے باعث چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی آج یعنی منگل کو وزیراعظم شہباز شریف كی وفاقی كابینہ سے حلف لے چکے ہیں۔ وفاقی کابینہ کی تقریب حلف برداری ایوان صدر میں منعقد ہوئی۔ 

ایوان صدر سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے كے مطابق وفاقی كابینہ میں مندرجہ ذیل وزرا اور وزرائے مملكت شامل ہیں۔

پاكستان مسلم لیگ ن

  1. خواجہ محمد آصف (وفاقی وزیر دفاع)
  2. احسن اقبال (وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی اور خصوصی اقدامات)
  3. رانا ثنا اللہ (وزیر داخلہ)
  4. سردار ایاز صادق
  5. رانا تنویر حسین (وزیر برائے فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ)
  6. خرم دستگیر خان
  7. مریم اورنگزیب (وزیر اطلاعات و نشریات)
  8. خواجہ سعد رفیق (وفاقی وزیر برائے ریلویز اور ہوابازی)
  9. مفتاح اسماعیل (خزانہ)
  10. میاں جاوید لطیف 
  11. ریاض حسین پیرزادہ
  12. مرتضی جاوید عباسی
  13. ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا (وزیر مملکت برائے معاشی امور اور ریونیو)
  14. اعظم نذیر تارڑ

پاكستان پیپلز پارٹی

  1. سید خورشید احمد شاہ (وزیر برائے آبی وسائل)
  2. سید نوید قمر (تجارت)
  3. شیری رحمان (وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی)
  4. عبد القادر پٹیل (وزیر برائے قومی صحت سہولیات)
  5. شازیہ مری (سربراہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام)
  6. سید مرتضی محمود (وزیر برائے انڈسٹریز اور پیداوار)
  7. ساجد حسین طوری (وزیر برائے سمندر پار پاکستانی اور ہیومن ریسورس ڈیولپمینٹ)
  8. احسان الرحمٰن مزاری (وزیر برائے انسانی حقوق)
  9. عابد حسین (وزیر برائے نجکاری)
  10. حنا ربانی کھر (وزیر مملکت برائے خارجہ امور)

جمیعت علمائے اسلام ف

  1. اسد محمود (وزیر مواصلات)
  2. عبد الواسع (وزیر برائے ہاوسنگ اینڈ ورکس)
  3. مفتی عبدالشکور (وزیر برائے مذہبی امور و ہم آہنگی)
  4. محمد طلحہ محمود (وزیر سیفران اینڈ فرنٹیئر ریجنز)

متحدہ قومی موومنٹ پاكستان

  1. سید امین الحق (وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی)
  2. سید فیصل علی سبزواری (وزیر برائے سمندری امور)

بلوچستان عوامی پارٹی

  1. محمد اسرار ترین (وزیر برائے دفاعی پیداور)

جمہوری وطن پارٹی

  1. نوابزادہ شاہ زین بگٹی (وزارت انسداد منشیات)

مسلم لیگ ق

  1. طارق بشیر چیمہ (وزیر برائے فوڈ سکیورٹی)

صدر مملکت نےعبد الرحمٰن خان کانجو کی بطور وزیر مملکت تعیناتی کی منظوری دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، صدر مملکت نے قمر زمان کائرہ اور انجینیئر امیر مقام اور عون چوہدری کی بطور ایڈوائزر تعیناتی کی منظوری بھی دے دی ہے۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کابینہ کی تشکیل سے متعلق اتحادی جماعتوں کی مشترکہ کمیٹی کا طویل اجلاس اتوار کو ہوا جس میں محکموں اور اہم عہدوں کی تقسیم سے متعلق جماعتوں کی شکایات کو دور کیا گیا۔

وزیر اعظم کے حلف اٹھانے کے تقریباً ایک ہفتے بعد کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی وجہ دو اہم اتحادیوں کے یہ اشارے تھے کہ وہ حکومت میں شامل ہونے کو تیار نہیں۔ تاہم وزیراعظم نے اتحادیوں کے ساتھ مسلسل ملاقاتیں کیں اور انہیں شمولیت پر رضامند کیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ وفاقی کابینہ کی تشکیل میاں نواز شریف اور اتحادی جماعتوں سے مکمل مشاورت کے بعد کی گئی ہے۔

 

’مجھے پوری امید ہے کہ وفاقی وزرا، وزرائے مملکت اور مشیر قیادت کریں گے اور عوام کے مسائل حل کریں گے۔ کام، کام اور صرف کام ہمارا نصب العین ہے۔‘

نئی وفاقی کابینہ میں شامل چند وزرا کی زندگیوں کے مختصر خاکے یہاں پیش ہیں۔

رانا ثنا اللہ

پیشے کے اعتبار سے ایک سینیئر ایڈووکیٹ رانا ثنا اللہ خان جمہوریت و آئین کی بحالی کے لیے ایک مضبوط آواز سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں اپنی جدوجہد کی وجہ سے کئی بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔

وہ پہلی بار 1990 میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور بطور رکن خدمات انجام دیں۔ 1990-93 کے دوران ڈپٹی اپوزیشن لیڈر۔ اپنی دوسری مدت میں وہ 1997-99 کے دوران پنجاب اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ 2002 میں تیسری بار پنجاب اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور 2002-07 کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کے طور پر کام کیا۔

وہ 2008 میں چوتھی مدت کے لیے پنجاب اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور 2008-13 کے دوران بطور وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سنبھالا اور ریونیو اور لوکل گورنمنٹ اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے محکموں کا اضافی چارج سنبھالا۔ وہ عام انتخابات 2013 میں پانچویں مدت کے لیے منتخب ہوئے ہیں اور وزیر قانون و پارلیمانی امور کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

2018 میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اسلام آباد کا رخ کیا۔

احسن اقبال

صوبہ پنجاب کے ناروال سے تعلق رکھنے والے احسن اقبال چوہدری معروف سیاست دان اور ماہر معاشیات ہیں۔ ن لیگ کے مرکزی قائدین کے وفادار ساتھیوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ سیاسی پس منظر کے خاندان سے تعلق ہونے کے ساتھ ساتھ کہا جاتا ہے کہ وہ انجینرنگ یونیوسٹی لاہور میں حافظ سعید کے شاگرد بھی رہے۔

کئی اہم وزارتوں پر رہے اور نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں انہوں نے پروگرام 2010 کا اعلان کیا جس پر بقول ان کے اگر عمل کیا جاتا تو پاکستان ایشیا کا ایک مضبوط ترین ملک ہوتا۔ وہ اس پروگرام کے کوآرڈینیٹر اور منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چئیرمین تھے۔ ایک وقت میں انہیں پی ٹی آئی کے رہنما مسلم لگ ن کے ’ارسطو‘ کہہ کر یاد کرتے تھے۔

مریم اورنگزیب

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی مریم اورنگزیب مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ پارٹی کی ترجمان کی حیثیت سے وہ عمران خان حکومت پر کڑی تنقید میں پیش پیش رہیں۔

وہ پہلی مرتبہ 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص نشست پر رکن منتخب ہوئیں۔ انہوں نے پارلیمانی سیکریٹری داخلہ کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی اور اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ اپنی پارٹی کے یوتھ ویمن ونگ، اسلام آباد اور راولپنڈی کی چیف آرگنائزر بھی رہیں۔

اکتوبر 2016 میں انہیں وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے وزیراعظم نواز شریف کی وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں وزارت اطلاعات کا قلم دان بھی سونپا گیا۔

اگست 2017 میں شاہد خاقان عباسی کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کر لیا گیا اور دوبارہ وزیر مملکت برائے اطلاعات بنا دیا گیا۔ اپریل 2018 میں ان کا مرتبہ بڑھا کر انہیں وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔ 2 جون 2018 کو انہیں ن لیگ کی باضابطہ ترجمان مقرر کر دیا گیا۔

2018 کے عام انتخابات میں وہ پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر دوبارہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

مفتاح اسماعیل

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 1990 میں امریکہ کی پینسلوینیا یونیورسٹی سے پبلک فنانس اور پولیٹکل اکانومی کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔ 1990 کی دہائی میں واشنگٹن میں آئی ایم ایف سے وابستہ رہے، 1993 میں وطن واپس لوٹے اور اپنے خاندانی بزنس سے وابستہ ہو گئے۔

2011 میں انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ 2012 سے 2013 تک انہوں نے پنجاب بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے سربراہ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔

مفتاح اسماعیل کو دسمبر 2017 میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں مشیر خزانہ مقرر کیا گیا۔ 27 اپریل 2018 کو خزانہ، محصولات اور اقتصادی امور کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ انہوں نے 31 مئی 2018 تک یہ ذمہ داری نبھائی۔

مفتاح اسماعیل پر بھی بدعنوانی کے الزامات عائد ہوئے۔ ان پر بطور چیئرمین سوئی سدرن گیس کمپنی پانچ قیمتی گیس فیلڈز کے ٹھیکے جامشورو جوائنٹ وینچر لمیٹڈ کوغیرقانونی دینے کا الزام  ہے، جس سے قومی خزانے کو مبینہ طور پر اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔

سید خورشید شاہ

تحریک انصاف کی حکومت میں طویل عرصے تک قومی احتساب بیورو کے آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمے میں حراست میں رہنے والے سید خورشید شاہ پیپلز پارٹی کے پرانے اور قابل اعتماد رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔

سکھر کے خورشید شاہ ہی ہیں کہ قومی اسمبلی اجلاس کے  دوران  تلخ کلامی، ہنگامہ آرائی یا احتجاج کی صورت میں سپیکر کی جانب سے جو جملہ سب سے زیادہ سنے کو ملتا ہے وہ ہے ’جائیں شاہ صاحب !!! انہیں منائیں۔ شاہ صاحب!!!! ایوان کے ماحول کو بہتر بنانا آپ سے زیادہ اور کون جانتا ہے۔‘

کسی بڑے سیاسی پس منظر کے بغیر وہ 1990 میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ لیکن اس سے سبل بی بی سی کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں کونسلر منتخب ہوئے لیکن کچھ ہی عرصے بعد واپڈا میں میٹر ریڈر کی ملازمت اختیار کرلی۔

بعد میں میٹر ریڈر کی ملازمت سے مستعفی ہو کر سیاست میں آگئے۔

سید نوید قمر

سید نوید قمر اپنے دھیمے مزاج اور شائستہ گفتگو کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق سندھ کے ایک معروف سیاسی گھرانے سے ہے۔ ان کے دادا سید میران علی شاہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سندھ اسمبلی کے پہلے سپیکر تھے۔ ان کے والد قمر زمان شاہ سندھ اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سینیٹر رہ چکے ہیں۔

نوید قمر نے 1988 سے پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا جب وہ 1988 میں سندھ اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ اس کے بعد 1990، 1993، 1997، 2002، 2008، 2013 اور 2018 کے انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی سیٹ پر منتخب ہوئے۔ موجودہ اسممبلی میں وہ ٹنڈو آدم خان سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

سید نوید قمر مختلف وزارتوں کے قلمدان سنبھال چکے ہیں۔ ان وزارتوں میں دفاع، خزانہ، پانی و بجلی، پٹرولیم و قدرتی وسائل اور نجکاری جیسی اہم وزارتیں شامل ہیں۔

شیری رحمان

سابق صحافی اور ایڈیٹر شیری رحمان کا اصل نام شہر بانو رحمان ہے مگر وہ اپنی کنیت یعنی شیری کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ انہیں 15 مارچ 2018 کو ایوان بالا سینٹ میں پاکستان کی پہلی خاتون قائد حزب اختلاف بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ 26 اگست 2018 تک اسی منصب پر فائز رہیں۔

’جمہوریت کی ہیرو‘ کا لقب پانے والی اور ’100 بااثر ایشیائی افراد‘ کی فہرست میں شامل ہونے والی شیری رحمن کا شمار ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے کیرئر کا آغاز صحافت سے کیا اور بعد میں سیاسی ایوانوں میں اپنا لوہا منوایا۔ وزارت عظمیٰ کے علاوہ شاید ہی کوئی عہدہ ہو جو شیری رحمن کے پاس نہ رہا ہو۔ پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات سے لے کر امریکہ میں بطور سفیر پاکستان کی نمائندگی کرنے تک شیری رحمن طاقت کے ایوانوں کو قریب سے دیکھ چکی ہیں اور ان ایوانوں کا اہم حصہ بھی رہی ہیں۔

شیری رحمن 20 سال تک صحافت کے پیشے سے منسلک رہیں اور دس سال کے طویل عرصے تک پاکستان کے معروف انگریزی میگزین دی ہیرالڈ کی ایڈیٹر انچیف رہیں۔ صحافت کو خیر باد کہنے کے بعد سیاست میں آئیں تو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر 2002 میں قومی اسمبلی میں آئیں۔ 2008 میں دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ وہ وزارت کے منصب پر بھی فائز رہ چکی ہیں۔ وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت صحت، وزارت برائے ترقی نسواں، اور وزیر برائے ثقافت بھی رہ چکی ہیں۔

شیری اس وقت پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر، چیئرپرسن سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور اور جناح انسٹیٹیوٹ کی سربراہ ہیں۔

حنا ربانی کھر

سال 2002 کے عام انتخابات میں حنا ربانی کھر، پنجاب کے حلقہ این اے 177 مظفرگڑھ 2 سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ اس سے قبل ان کے والد، سینیئر سیاست دان غلام ربانی کھر، اس حلقے کی نمائندگی کرتے رہے۔ حنا ربانی کھر نے شوکت عزیز کے دور حکومت میں نمایاں حیثیت حاصل کی۔ 2003 میں انہیں پارلیمانی سیکریٹری برائے اقتصادی امور و شماریات مقرر کیا گیا جبکہ اگلے سال وزیر مملکت برائے اقتصادی امور بنا دیا گیا اور وہ 2007 تک اس عہدے پر فائز رہیں۔

ویب سائٹ پاک ووٹرز کے مطابق 2005 میں پاکستان کے شمالی حصے میں آنے والے ہولناک زلزلے کے بعد وہ وزیر مملکت کی حیثیت سے بین الاقوامی امدادی اداروں اور فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہیں اور ’ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت‘ پائپ لائن منصوبے پر بھی کام کیا۔

بعد ازاں انہیں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت ملی اور دوسری بار بھی انہوں نے اپنے حلقے سے کامیاب انتخابی مہم چلائی۔ 2008 میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد انہیں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے خزانہ و اقتصادی امور کے طور پر شامل کیا گیا۔

11 فروری 2011 کو یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں ہی انہیں وزیر مملکت برائے امور خارجہ مقرر کر دیا گیا۔ وہ پانچ ماہ تک قائم مقام وزیر خارجہ کے طور پر کام کرتی رہیں جس کے بعد 18 جولائی کو انہیں وفاقی وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔

19 جولائی کو انہوں نے اس عہدے کا حلف اٹھایا اور یوں دنیا کی پہلی سب سے کم عمر خاتون وزیر خارجہ بن گئیں۔

شازیہ مری

شازیہ مری نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز رکن سندھ اسمبلی کے طور پر کیا۔ انہیں 2002 میں وزیر بجلی کے طور پر صوبائی کابینہ میں شامل کیا گیا۔ وہ 2012 تک سندھ کی صوبائی اسمبلی کی رکن رہیں جس کے بعد وہ 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار کی حیثیت سے خواتین کے لیے مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہو گئیں۔

2018 کے عام انتخابات میں وہ حلقہ این اے 216 سانگھڑ 2 سے پی پی پی امیدوار کے طور پر دوبارہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

عبدالقادر پٹیل

55 سالہ عبدالقادر پٹیل پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ہیں اور ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ وہ پہلی مرتبہ 25 سال کی عمر میں رکن پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔ وہ سیاست میں پہلی مرتبہ 1993 میں آئے جب انہوں نے سندھ اسمبلی کی نشست جیتی۔ وہ اپنی گرما گرم تقاریر کی وجہ سے بھی جاننے جاتے ہیں۔

اسد محمود

مولانا فضل الرحمن کے برخوردار اور ٹانک سے 2018 میں منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی، اسد محمود بھی والد کی طرح مدلل مقرر ہیں۔ وہ بھی پہلی مرتبہ وزیر بنیں گے۔ وہ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی جانشین ہیں۔ متحدہ مجلس عمل نے انہیں ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لیے بھی نامزد کیا تھا لیکن وہ پی ٹی آئی کے قاسم سوری سے ہار گئے تھے۔

وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے چیئرمین کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

مفتی عبدالشکور

متحدہ مجلس عمل کے لکی مروت سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی مفتی عبدالشکور ہیں۔ وہ اگست 2018 کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ منتخب ہوئے تھے۔ وہ بھی پہلی مرتبہ کابینہ میں شامل ہو رہے ہیں۔

مولانا عبدالواسع

متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے 2018 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے مولانا عبدالواسع جعمیت علمائے اسلام کے پرانے رکن ہیں۔ وہ اسلام آباد آنے سے قبل بلوچستان اسمبلی میں 2013 کے انتخابات کے بعد قائد حزب اختلاف رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق بلوچستان کے مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ سے ہے۔

ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا

یہ ڈاکٹرحفیظ احمد پاشا کی اہلیہ ہیں اور تین مارچ 1962 کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے کراچی  یونیورسٹی سے بی اے آنرز، ایم اے اکنامکس اور اکنامکس میں ماسٹرز آف اپلائڈ سائنس کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ عائشہ پاشا نے 1991 میں  لیڈز یونیورسٹی  برطانیہ سے اکنامکس  میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔

وہ حکومت  کے کئی محکموں میں بطور ٹیکنیکل ایکسپرٹ منسلک رہی ہیں۔ آپ پاکستان میں دو اہم تھنک ٹینکس بشمول سوشل پالیسی اور ڈویلپمنٹ سینٹر کراچی اور انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی بی این یو لاہور کی سربراہ رہی ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ پاکستان میں غربت کے خاتمے کے فنڈ کی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی رکن رہی ہیں۔

وہ اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف اکنامک اینڈ سوشل افیئرز جیسی مختلف بین الاقوامی اور دو طرفہ  تنظیموں میں بطور کنسلٹنٹ خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ وہ 2013 کے عام انتخابات میں خواتین  کی مخصوص نشست پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئیں اور وزیر خزانہ کے طور پر فرائض سرانجام  دیتی رہی ہیں۔ آپ کے شوہر سابق وفاقی وزیر ملک  کے ممتاز معیشت دان بھی ہیں۔

مخدوم سید مرتضٰی محمود

19 اپریل 1985 کو پیدا ہوئے اور اکنامکس میں بی اے آنرز ہیں۔ مرتضی محمود ایک زمیندار ہیں جو 2013 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے رکن  پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔

آپ برطانیہ ،جرمنی ،متحدہ عرب امارات ،انڈیا اور سعودی عرب کا سفر کرچکےہیں ۔آپ  معروف سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کے پردادا مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ سابقہ ریاست بہاولپور کی نمایاں شخصیت تھے جنہوں نے قبل از تقسیم ہند، تحریک پاکستان میں بھر پور شرکت کی اور وہ امیر بہاولپور کی جانب سے بطور وزیر برائے مہاجرین و بحالیات  مقرر کیے گئے۔

سابق وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی سید یو سف رضا گیلانی سید مرتضی محمود کے چچا ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان