جو روٹ کپتانی سے مستعفی: اب توجہ بلے بازی پر ہو گی؟

روٹ نے 2017 میں ایلسٹر کک کے بعد یہ عہدہ سنبھالا تھا اور بطور کپتان انگلینڈ کے لیے 27 ٹیسٹ میچز جیتنا ان کا ایک ریکارڈ ہے۔

انگلینڈ کے کپتان روایتی طور پر بلے باز رہے ہیں لیکن خود روٹ کے علاوہ ٹاپ آرڈر میں تجربے اور قابل اعتماد رنز بنانے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔(اے ایف پی فائل

انگلش کرکٹر جو روٹ نے ایشز میں ٹیم کی حالیہ خراب کارکردگی اور ویسٹ انڈیز کے دورے میں شکست کے بعد ٹیسٹ کپتان کی حیثیت سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے کہ کپتان کے کردار میں وہ ’کھیل سے ہٹ رہے ہیں۔‘

روٹ نے 2017 میں ایلسٹر کک کے بعد یہ عہدہ سنبھالا تھا اور بطور کپتان انگلینڈ کے لیے 27 ٹیسٹ میچز جیتنا ان کا ایک ریکارڈ ہے۔ وہ کامیاب ترین انگلش کپتان کے مقابلے میں مائیکل وان، اینڈریو سٹراس اور ایلسٹر کک سے آگے ہیں جنہوں نے بالترتیب 26 اور 24, 24 میچوں میں بطور کپتان ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔

ان فتوحات میں روٹ نے بطور کپتان نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور سری لنکا میں شاندار سیریز جیتنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

لیکن ان کی قیادت میں انگلینڈ تین ایشز سیریز میں فتح سے محروم رہا  ہوم سیریز ڈرا ہونے کے بعد آسٹریلیا میں کھیلی گئی دونوں سیریز میں انگلش ٹیم کو چار صفر کی شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔

ان کے ٹیسٹ جیتنے کا ریکارڈ 25 شکستوں سے داغ دار ہو گیا اور ان دباؤ بڑھتا ہی چلا گیا کیونکہ انگلینڈ اپنی پانچ حالیہ سیریز میں سے کوئی بھی سیریز جیتنے میں ناکام رہا۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک صفر سے شکست کے بعد، جس میں روٹ نے ایک متنازع فیصلے میں اپنے کامیاب ترین باؤلرز سٹورٹ براڈ اور جیمز اینڈرسن کو ڈراپ کر دیا تھا، انگلینڈ کے سابق کپتانوں وان، ناصر حسین اور مائیک آتھرٹن سبھی نے یہ مشورہ دیا کہ یہ 31 سالہ روٹ کی کپتانی کا خاتمہ ہونا چاہیے جنہیں اس کے بجائے صرف اپنی بیٹنگ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور کک کے 12,472 ٹیسٹ رنز کے انگلینڈ کے ریکارڈ کو عبور کرنا چاہیے (روٹ اس وقت 9,889 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں)۔

روٹ نے ایک بیان میں کہا: ’کیریبین کے دورے سے واپس آنے اور سوچنے کا وقت ملنے کے بعد میں نے انگلینڈ کے ٹیسٹ کپتان کے عہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ میرے لیے اپنے کیریئر کا سب سے مشکل فیصلہ رہا ہے لیکن اپنے خاندان اور اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ اس پر بات کرنے کے بعد میں جانتا ہوں کہ یہ اس کے لیے صحیح وقت ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’مجھے اپنے ملک کی کپتانی کرنے پر بے حد فخر ہے اور میں گذشتہ پانچ سالوں کی کارکردگی کو فخر کے ساتھ دیکھوں گا۔ یہ ایک اعزاز کی بات ہے کہ میں نے انگلش کرکٹ کی قیادت کی اپنے کام کو مکمل کیا۔ مجھے اپنے ملک کی قیادت کرنا پسند ہے لیکن حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سے مجھے (بطور بلے باز) کتنا نقصان ہوا ہے اور اس کا کھیل سے دور مجھ پر کیا اثر پڑا ہے۔‘

روٹ نے کہا: ’میں اس موقع پر اپنے خاندان، کیری، الفریڈ اور بیلا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے یہ سب کچھ میرے ساتھ گزارا اور ان کی محبت اور حمایت میرے لیے ناقابل یقین سہارا رہا۔ وہ تمام کھلاڑی، کوچ اور معاون عملہ جنہوں نے میرے کپتانی میں میری مدد کی۔ اس سفر میں ان کے ساتھ رہنا ایک بڑا اعزاز ہے۔‘

ان کے بقول: ’میں انگلینڈ کے تمام شائقین کا ان کی غیر متزلزل حمایت کے لیے بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ وہ دنیا میں بہترین شائقین ہیں اور جہاں بھی ہم کھیلتے ہیں ان کی اس مثبت بات کو ہم ہمیشہ پسند کرتے ہیں اور اس کے معترف ہیں جو ہم سب کی وہاں حوصلہ افزائی کرتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں تھری لائنز (انگلینڈ کرکٹ) کی نمائندگی جاری رکھنے اور ایسی کارکردگی پیش کرنے کے لیے پرجوش ہوں جو ٹیم کو کامیاب کرنے کے قابل بنائے گی۔ میں اگلے کپتان، اپنی ٹیم کے ساتھیوں اور کوچز کی ہر ممکن مدد کرنے کا منتظر ہوں۔‘

انگلینڈ کی ٹیم اس وقت کپتان، ہیڈ کوچ اور منیجنگ ڈائریکٹر کی پوزیشنز خالی ہیں جبکہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ ایک نئی قیادت کی تلاش میں ہے جو انگلینڈ کی ایشز سیریز کے بعد ایک ہنگامہ خیز دور کا نتیجہ ہے لیکن بورڈ کو نیوزی لینڈ کے ساتھ چھ ہفتے بعد تین میچوں کی سیریز کے لیے فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہوگی۔

انگلینڈ کے کپتان روایتی طور پر بلے باز رہے ہیں لیکن خود روٹ کے علاوہ ٹاپ آرڈر میں تجربے اور قابل اعتماد رنز بنانے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ بین سٹوکس ممکنہ طور پر کپتانی کی ذمہ داری سنبھالنے والے امیدوار ہیں جو انگلینڈ کی بیٹنگ لائن اپ کا ایک لازمی حصہ اور ایک کھیل کا پانسہ پلٹنے والے بولر بھی بن گئے ہیں۔ سٹیورٹ براڈ ایک اور ممکنہ کپتان ہیں تاہم 35 سال کی عمر میں وہ سٹوکس سے پانچ سال بڑے ہیں اور اپنے کیریئر کے اختتام کے قریب ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سٹوکس نے انسٹاگرام پر روٹ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا: ’میرے دوست آپ کے ساتھ بہت اچھا سفر رہا۔ اپنے عظیم ساتھیوں میں سے ایک کو میدان میں قیادت کرتے ہوئے دیکھنا ایک اعزاز تھا۔ آپ نے انگلش کرکٹ کو سب کچھ دیا ہے اور ہم سب آپ کی قربانیوں اور محنت کے لیے شکریہ کہنا چاہتے ہیں۔‘

ای سی بی کے چیف ایگزیکٹیو ٹام ہیریسن نے روٹ کے بارے میں کہا: ’جو روٹ اپنے دور میں ایک غیر معمولی رول ماڈل رہے ہیں جو ٹیسٹ کپتانی کے تقاضوں میں توازن برقرار رکھتے ہوئے اپنی ذاتی کارکردگی کے ذریعے شاندار طریقے سے چمکتے رہے۔‘

ہیریسن نے مزید کہا: ’انہوں نے مثالی قیادت کی ہے اور اس کے نتیجے میں کسی بھی دوسرے انگلینڈ کے کپتان کے مقابلے میں سب سے زیادہ ٹیسٹ جیتنے کے ساتھ ساتھ  ملک میں اور باہر کئی مشہور سیریز میں فتوحات حاصل کی ہیں۔ جو روٹ کی قائدانہ صلاحیتوں کی مثال دی گئی کہ کس طرح انہوں نے ٹیم کی ان مشکل ترین اور غیر یقینی وقت میں رہنمائی کی جب پوری دنیا وبائی امراض کا سامنا کر رہی تھی اور یہ جو روٹ کو بطور رہنما اور ایک انفرادی شخص کے بیان کرتا ہے۔‘

وان نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ’انہوں نے اپنی نگرانی میں ریڈ بال ٹیم کے لیے بہت کم مدد کے ساتھ یہ سب کچھ کیا۔ پھر انہیں کووڈ کے وقت سے نمٹنا پڑا، وہ اب بھی اس کھیل کے بہترین رول ماڈل ہیں اور کئی سالوں تک رہیں گے۔ وہ اب مزید کئی سیزنز کے لیے سینئر کھلاڑی ہونے کا لطف اٹھائیں۔‘

ایتھرٹن نے سکائی سپورٹس نیوز کو بتایا: ’میں (اس فیصلے سے) حیران نہیں ہوں۔ یہ ایشز کے اختتام پر ایک ایسے مرحلے پر پہنچ گیا تھا یہاں تک کہ ویسٹ انڈیز کے دورے سے پہلے، جہاں اس (ٹیم) میں واضح تبدیلی کی ضرورت تھی۔ انگلینڈ کے ہر کپتان کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ نے سب کچھ دے دیا ہے اور آپ مزید نہیں کر سکتے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میرے خیال میں گریناڈا ٹیسٹ میں ایک خاص لمحہ ایسا تھا جہاں بین فوکس رن آؤٹ ہو گئے تھے۔ انگلینڈ کی ٹیم لڑکھڑا رہی تھی اور کیمرے انگلینڈ کے ڈریسنگ روم میں جو روٹ کی مایوسی کو دکھا رہے تھے اور حقیقت میں ایشیز کے اختتام پر یہ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ انہیں کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔

انہوں نے کوچ کرس سلور ووڈ اور منیجنگ ڈائریکٹر سے چھٹکارا حاصل کرکے اور کچھ سینئر کھلاڑیوں کو ڈراپ کر کے اپنی کپتانی کو بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن میرے خیال میں یہ بالکل واضح تھا جو کا اختتام قریب آ گیا تھا۔‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کون روٹ کی جگہ لے سکتا ہے، ایتھرٹن نے مزید کہا: ’اس کے لیے بہت زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔ آپ کو کسی ایسے شخص کو چننا ہوگا جو ان کی جگہ لینے کے قابل ہو۔ وہ دن گزر چکے ہیں جب آپ کے پاس مائیک بریرلی جیسی شخصیت ہوسکتی ہے۔ کوئی ایسا شخص جو ضروری نہیں کہ پہلی چوائس ہو۔‘

’آزمائش کی وجہ سے آپ کو اس جگہ کے قابل ہونا پڑے گا۔ بین سٹوکس واضح (امیدوار) ہیں۔ جو روٹ کے بہت وفادار ہیں اور اگر روٹ نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دینے کی پیشکش کی تو وہ یہ عہدہ لینے میں کافی آسانی محسوس کریں گے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ