فواد اور شہباز گل کا کام ہی بہتان تراشی اور ٹرولنگ ہے: محسن داوڑ

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی ٹوئٹس پر محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ ’خود تو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں اور جو آواز اٹھاتے ہیں ان کے خلاف پی ٹی آئی کی پوری قیادت ایسی باتیں کرتی ہے۔‘

 شمالی وزیرستان سے پی ٹی ایم کے رکن پارلیمنٹ محسن داوڑ 27 جنوری 2020 کو پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد میں ایک میڈیا بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے (فائل تصویر: اے ایف پی)

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو ’بہتان‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے چیئرمین محسن داوڑ نے گذشتہ روز قومی اسمبلی میں تقریر کی جس کے خلاف پی ٹی آئی کابینہ کے سابق اراکین فواد چوہدری اور شہباز گل نے ٹویٹس کی ہیں۔

سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے لکھا کہ ’پشتون تحفظ موومنٹ نے پاکستان فوج کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی۔ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ جنہوں نے اس جرم کی سربراہی کی وہ #کرائم منسٹر (ان کا استعمال کردہ ہیش ٹیگ) کے ساتھ اسلام آباد میٹرو کے جعلی افتتاح میں موجود تھے۔ یہ چل کیا رہا ہے؟‘

سابق مشیر شہباز گل نے ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’محسن داوڑ اور علی وزیر نے آج ہماری بہادر افواج کے مخالف جو تقاریر کی ہیں اس پر قوم نیوٹرل نہیں رہ سکتی۔ ہم ہر صورت اپنی فوج کا دفاع کریں گے اور اس طرح کی گھٹیا سوچ اور بیانیے کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمارا ایک ایک جوان ہمارا فخر ہے۔ ہماری شان ہے۔ پوری قوم کو اپنے شہیدوں پر فخر ہے۔‘

اس پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے چیئرمین محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ’فواد چوہدری اور شہباز گل کا کام ہی بہتان تراشی اور ٹرولنگ ہے۔ میں نے جو کہا وہ حقیقت ہے مگر انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ خود تو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں اور جو آواز اٹھاتے ہیں ان کے خلاف پی ٹی آئی کی پوری قیادت ایسی باتیں کرتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو ظلم ہوا ہے پی ٹی آئی نے اس کی توثیق کی ہے۔ فلسطین اور باقی جگہوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف تو یہ گلا پھاڑ پھاڑ کر بات کرتے ہیں مگر اپنے شہریوں پر جو ظلم ہوتا ہے اس کے خلاف بولنے پر ان کی زبان کو زنگ لگ جاتا ہے اور  بولتی بند ہو جاتی ہے۔‘

محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ’بچوں اور خواتین کے جان سے جانے کی مذمت اور اس پر اظہار افسوس کی بجائے جو لوگ اس ظلم کی مذمت کر رہے ہیں یہ (شہباز گل اور فواد چوہدری) اب کے خلاف بول رہے ہیں۔‘

’ہم میں اور پی ٹی آئی میں فرق یہ ہے کہ ہم ظلم کے خلاف فریاد کرتے ہیں اور یہ اقتدار جو کہ ’انہی‘ کا دیا ہوا تھا، چلے جانے پر سوشل میڈیا پر مہم چلاتے ہیں۔ ہم تو ظلم و ستم کے خلاف فریاد سناتے ہیں۔‘

گذشتہ روز رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ ’وہ آئی ڈی پیز (اندرونی طور پر بےگھر افراد) جو فوجی آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے پہلے افغانستان کے بارڈر کو پار کر کے افغانستان چلے گئے اور وہ ابھی تک وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔‘

’پچھلی حکومت نے ان کو واپس لانے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی اور وہ انتہائی بری حالت میں وہاں پر زندگی گزار رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کل رات کو پاکستان ایئر فورس کے طیاروں نے افغان بارڈر کے اس طرف بمباری کی جس میں 40 سے زیادہ افراد ’جاں بحق‘ ہوئے جس کی میں مذمت کرتا ہوں۔‘

’جناب سپیکر بعض چیزیں ہماری ریڈ لائنز ہیں جن پر ہم بالکل بھی سمجھوتہ نہیں کر سکتے اور کسی صورت بھی خاموش نہیں رہ سکتے، اس چیز کو روکنا ہو گا۔‘

محسن داوڑ کی اس تقریر پر سوشل میڈیا پر تبصرے ہونے لگے اور  #MohsinDawarSpeaksTruth ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا اور کچھ ان کی حمایت اور کچھ مخالفت میں بولنے لگے۔

پشتون قوم پرست رہنما محسن داوڑ کی گذشتہ روز قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے جس میں صارفین دو دھڑوں میں بٹ کر ان کے حق اور مخالفت میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔

ٹوئٹر صارف شیر ایوب وزیر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا: ’ہم افغانستان اور انسانیت دونوں پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ محسن داوڑ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمان میں خوست اور پورے افغانستان کی صورت حال پر بحث کریں۔

نصیر اچکزئی نے لکھا کہ ’اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کہاں محسن داوڑ حزب اختلاف کے بینچز پر ہوں یا حکومتی بینچز پر۔ وہ ایوان کے واحد فرد ہیں جنہوں نے نہ کبھی سمجھوتہ کیا ہے اور نہ ہی اپنا بنیادی موقف چھوڑا۔‘

عمران نامی ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا: ’پرانی اور منجھی ہوئی سیاسی جماعتوں کو ایک یا دو وزارتوں کے لیے انداز گفتگو بدلتے دیکھا ہے۔ لیکن اس شخص نے اپوزیشن سے حکومتی بنچوں پر جانے کے باوجود اپنے نظریے پر سمجھوتہ نہیں کیا اسی لیے ’فوری حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ‘ کے لیے ابھی بھی پہلا ہدف ہے۔

 حکمت وزیر نے تحریر کیا کہ ’محسن داوڑ ہمیشہ قانونی زبان استعمال کرتے ہیں۔‘

تاہم ان کی تقریر کی مخالفت میں بھی سوشل میڈیا صارفین نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

سمیر ملک نے تحریر کیا کہ ’محسن داوڑ اور علی وزیر نے آج ہماری بہادر افواج کے مخالف جو تقاریر کی ہیں اس پر قوم نیوٹرل نہیں رہ سکتی۔ ہم ہر صورت اپنی فوج کا دفاع کریں گے اور اس طرح کی گھٹیا سوچ اور بیانیے کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمارا ایک ایک جوان ہمارا فخر ہے۔ ہماری شان ہے۔ پوری قوم کو اپنے شہیدوں پر فخر ہے‘

خیال رہے کہ ان چند ٹویٹس میں استعمال ہونے والے الفاظ تو وہی ہیں جو شہباز گل کی ٹویٹ میں بھی موجود ہیں لیکن انہیں مختلف اکاؤنٹس سے کیا گیا ہے۔

 ہالہ نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا: ’آج علی وزیر اور محسن داوڑ نے ایوان میں کھڑے ہو کر امپورٹڈ حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان کی فوج کے خلاف نعرے لگائے۔

انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ’اب ایوان میں کوئی نہیں رہ گیا جو پاکستان کی فوج کا دفاع کرے۔ ‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ