کیا بیگمات غیر ملکی دوروں پر کرکٹرز کو قابو میں رکھتی ہیں؟

پی سی بی کے سابق چیئرمین ذکا اشرف نے گذشتہ دنوں انکشاف کیا کہ سٹار کرکٹرز کی آف دی فیلڈ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ان کی بیگمات کو استعمال کیا گیا۔

18 اپریل، 2012 کو لاہور میں پی سی بی کے چیئرمین ذکا اشرف پریس کانفرنس کر رہے ہیں (اے ایف پی)

سٹار کرکٹرز کو سنبھالنا ہمیشہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے لیے مشکل کام رہا ہے کیونکہ یہ کھلاڑی اپنا بہت بڑا فین کلب رکھتے ہیں اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر بے لگام گھوڑے بن جاتے ہیں۔

غیرملکی دوروں میں بڑے کرکٹر مینیجر کے قابو میں نہیں آتے اور بعض اوقات ایسے سکینڈلز میں گھر جاتے ہیں جن کو سنبھالنا بورڈ کے بس کی بات نہیں ہوتی اور نتیجتاً جگ ہنسائی ہوتی ہے۔

پی سی بی کے سابق چیئرمین ذکا اشرف نے گذشتہ دنوں انکشاف کیا کہ سٹار کرکٹرز کی آف دی فیلڈ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ان کی بیگمات کو استعمال کیا گیا کیونکہ ان کھلاڑیوں کی بیگمات ہی اتنی طاقت اور تیز نظر رکھتی ہیں کہ کھلاڑی کہیں کسی غلط سرگرمی میں نہ پڑ جائیں۔

ذکا اشرف کہتے ہیں کہ 2011 کے آخری دنوں میں اچانک بھارت کے ساتھ ایک مختصر سیریز طے ہوئی اور پاکستانی ٹیم بھارت کے دورے پر روانہ ہو گئی۔

ٹیم کی روانگی سے قبل ہم پریشان تھے کہ پانچ سال کے بعد اس دورے میں کھلاڑی کسی نامناسب سرگرمی میں ملوث نہ ہوجائیں کیونکہ ماضی میں بھارت کے دوروں میں کئی دفعہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کی خبریں آتی رہی تھیں۔

دوسری طرف بھارت کو سٹے بازوں کی جنت سمجھا جاتا ہے تو ہم کھلاڑیوں کو ان سے بھی دور رکھنا چاہتے تھے۔

تب ہم نے کھلاڑیوں کی بیگمات کو ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کیا کیونکہ بیگمات کی موجودگی میں کھلاڑی میچ کے بعد صرف فیملی کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔

ہم اس کے ذریعے کھلاڑیوں پر غیر محسوس سخت نظر رکھنا چاہتے تھے اور اس میں کامیاب بھی رہے۔ دورہ خوش گوار انداز میں اختتام پذیر ہوا اور کسی نامناسب خبر کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اگر پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کی ٹیموں کو دیکھا جائے تو انگلینڈ اور آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کی بیگمات زیادہ تر دوروں پرساتھ ہوتی ہیں جس سے کھلاڑیوں کی مکمل توجہ کھیل یا فیملی پر ہوتی ہے۔

بیگمات کے ساتھ ہونے سے کھلاڑیوں کو فیملی سے ہٹ کر کچھ کرنے کا کم ہی موقع ملتا ہے۔

ماضی میں پاکستان ٹیم کے ساتھ کئی ممالک کے دوروں میں ایسے واقعات سامنے آئے جس سے ٹیم کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا۔

2010 کا انگلینڈ کا دورہ اس کی ایک مثال ہے جس میں طویل دورے ہونے کے باعث کھلاڑی آف دی فیلڈ سرگرمیوں میں ملوث ہوئے اورچند ایک کو جیل بھی جانا پڑا۔

1979 کا بھارت کا دورہ بھی دو ماہ جاری رہا تھا اور ٹیم کے اکثر کھلاڑی بیگمات ساتھ نہ ہونے کے باعث رات گئے تک پارٹیوں میں مصروف رہتے تھے جس سے پاکستان کی مضبوط ٹیم میدان میں کمزور ثابت ہوئی اور پے درپے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

1993 میں ویسٹ انڈیز کا دورہ بھی پاکستان کرکٹ کو داغ لگا گیا جب کچھ کھلاڑی منشیات استعمال کرنے کے الزام میں حوالات گھوم کر آئے۔

2002 میں انگلینڈ کے دورے میں بھی کچھ کھلاڑی ڈسپلن کی علی الاعلان خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے اور اس دورہ کے مینیجر یاور سعید نے دورے کے اختتام پر سخت مایوس کن رپورٹ دی تھی اور چند کھلاڑیوں پر مناسب پابندی کی سفارش کی تھی۔

2017 میں چیمپئینز ٹرافی کے سکواڈ سے بھی ایک کھلاڑی کو نامناسب سرگرمیوں کے باعث وطن بھیج دیا گیا تھا۔

2015 میں ورلڈکپ کے دوران ٹیم مینیجر میچ سے ایک رات قبل کیسینو میں پائے گئے جس پر بہت شور مچا تھا۔

اس سے پہلے 1978 میں انگلینڈ کے ایک دورے میں پاکستان ٹیم کے مینیجر کا ہوٹل ویٹریس کے ساتھ نازیبا حرکت کا تنازع سامنےآیا تھا اور انگلش اخبارات نے اس کو بہت اچھالا تھا۔

ماضی کے پاکستان ٹیم کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کے واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو سابق چئیرمین ذکا اشرف کی یہ حکمت عملی درست نظر آتی ہے کہ کھلاڑیوں کی بیگمات دوروں پر ساتھ بھیجی جائیں جو اپنے شوہروں پر سخت نظر رکھتی ہیں اور ان کی آف دی فیلڈ کسی بھی سرگرمی کو روک سکتی ہیں۔   

کیا موجودہ کرکٹ بورڈ بھی مستقبل میں کسی بھی دورے پر کھلاڑیوں کو نظم و ضبط کا پابند رکھنے کے لیے بیگمات کو ساتھ بھیجے گا تاکہ کھلاڑیوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ کھیل پر مرکوز رہے۔

اگرچہ اب پاکستان ٹیم میں کوئی ایسا کھلاڑی نہیں جو ڈسپلن کی سنگین خلاف ورزی کا موجب بنا ہو تاہم ایسے کسی بھی کھلاڑی کے لیے ذکا اشرف کی حکمت عملی کار آمد فارمولا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ