ہتھیاروں کی دوڑ: دنیا کے فوجی اخراجات بلند ترین سطح پر

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے محققین کے مطابق 2021 میں پہلی بار پوری دنیا کے فوجی اخراجات دو کھرب ڈالر سے تجاوز کرتے ہوئے اس سطح پر پہنچ گئے ہیں، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

ایک نئی تحقیق کے مطابق دنیا کے فوجی اخراجات 2021 میں پہلی بار دو کھرب ڈالر سے تجاوز کرتے ہوئے اس سطح پر پہنچ گئے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے محققین نے پیشگوئی کی ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد یورپ میں سلامتی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے گذشتہ سال 2.1 کھرب ڈالر کے کل عالمی فوجی اخراجات رواں برس اس سے زیادہ ہو جائیں گے۔

تحقیق کے مطابق 2021 میں اپنے فوجی اسلحے میں اضافہ کرنے والے سرفہرست ممالک امریکہ، چین، بھارت، برطانیہ اور روس تھے۔ یہ اخراجات ان کے مجموعی اخراجات کا 62 فیصد بنتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں کووڈ 19 کے وبائی مرض کے معاشی نتائج کے باوجود حکومتوں کے عالمی فوجی اخراجات میں گذشتہ سال 0.7 فیصد اضافہ ہوا۔

سپری کے سینیئر محقق ڈیاگو لوپس ڈا سلوا کے بقول: ’2021 میں فوجی اخراجات مسلسل ساتویں بار بڑھ کر 2.1 کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ گئے۔ یہ ہمارے پاس اب تک کے بلند ترین اعدادوشمار ہیں۔‘

اگرچہ امریکہ نے 801 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات کے ساتھ دیگر تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن حقیقت میں اس نے اپنے 2020 کے اخراجات میں 1.4 فیصد کی کمی ریکارڈ کی ہے۔

2012  اور 2021 کے درمیان فوجی تحقیق اور ترقی کے لیے امریکی فنڈنگ میں 24 فیصد اضافہ ہوا جب کہ اسی عرصے کے دوران اسلحے کی خریداری میں 6.4 فیصد کمی ہوئی۔ 2021 میں گذشتہ سالوں کی نسبت دونوں طرح کے اخراجات کم ہوئے۔

فوجی اخراجات اور ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق سپری کے پروگرام سے منسلک محقق الیگزینڈرامارک سٹینر کہتی ہیں کہ ’21-2012 کی دہائی کے دوران تحقیق اور ترقی پر ہونے والے اخراجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ جدید ترین ٹیکنالوجیز پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ امریکی حکومت فوجی ٹیکنالوجی میں سٹریٹیجک حریفوں پر بالادستی قائم رکھنے کی ضرورت پر کئی بار زور دے چکی ہے۔‘

اسی طرح چین فوجی اسلحے پر رقم خرچ کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ 2021 میں گذشتہ سال کے مقابلے میں اس کے اخراجات میں 4.7 فیصد اضافہ ہوا۔ مسلسل 27 سال تک اپنی فوجی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہوئے چین نے 2021 میں اپنی فوج پر ایک اندازے کے مطابق 293 ارب ڈالر خرچ کیے۔

سپری کی سینیئر محقق ڈاکٹر نان تیا کا کہنا ہے کہ جنوبی اور مشرقی چینی سمندروں کے اندر اور اردگرد کے علاقے میں چین کی ’بڑھتی ہوئی دھونس‘ آسٹریلیا اور جاپان جیسے ملکوں میں فوجی اخراجات کا سبب بنی۔

محقق کے بقول: ’اس کی ایک مثال آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان ہونے والا سہ فریقی سلامتی معاہدہ (AUKUS) ہے، جس کے تحت آسٹریلیا کو ایٹمی طاقت سے چلنے والی آٹھ آبدوزیں فراہم کی جائیں گی۔ ایک اندازے کے مطابق اس پر 128 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت جو سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والا تیسرا ملک ہے، نے اپنی مشرقی سرحد پر چینی فوج کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج پر 76.6 ارب ڈالر کے اخراجات کیے۔ بھارت کے فوجی اخراجات میں 2020 سے 0.9 فیصد اور 2012 کے مقابلے میں 33 فیصد اضافہ ہوا۔

برطانیہ نے فوجی اخراجات میں تین فیصد اضافے کے ساتھ 68.4 ارب ڈالر کا چوتھا مقام حاصل کیا اور سعودی عرب کی جگہ لے لی، جس نے اخراجات میں 17 فیصد کمی کی۔

روس جس نے 24 فروری کو یوکرین کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا، نے جنگ کے دوران اپنے فوجی اخراجات میں 2.9 فیصد اضافہ کیا۔ 2021 میں ماسکو نے اپنی فوجی طاقت میں اضافے کے لیے ایسے وقت میں 65.9 ارب ڈالر خرچ کیے، جب اس نے فوجوں کو یوکرین کی سرحد پر جمع کیا۔

سپری کے فوجی اخراجات پروگرام کی ڈائریکٹر لوسی بیروسودرو کہتی ہیں کہ تیل اور گیس سے ہونے والی بڑی آمدن نے روس کو 2021 میں فوجی اخراجات میں اضافے میں مدد دی۔ ان کے بقول: ’2014 میں روس کی طرف سے کرائمیا کے اپنے ساتھ الحاق کے ردعمل میں لگنے والی پابندیوں اور اس کے ساتھ توانائی کی کم قیمتوں کی وجہ سے 2016 اور 2019 کے درمیان روسی فوجی اخراجات کم ہو رہے تھے۔‘

دریں اثنا یوکرین کے اخراجات کم ہو کر 5.9 ارب ڈالر رہ گئے لیکن پھر بھی یہ ملک کی مجموعی قومی پیدوار کا 3.2 فیصد ہے۔ چوں کہ یوکرین پر روس کے حملے نے یورپ میں کشیدگی بڑھا دی ہے، اس لیے نیٹو میں شامل مزید ممالک نے فوجی اخراجات میں اضافہ کر دیا ہے جن میں جرمنی بھی شامل ہے جو وسطی اور مغربی یورپ میں فوجی اخراجات کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ لوپس ڈا سلوا کا کہنا ہے کہ تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ یورپ میں فوجی اخراجات بڑھتے رہیں گے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا