عدالتی ہدایت کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کی حلف برداری ہو گی؟

پنجاب اسمبلی کے آج اجلاس میں دو وزرائے اعلیٰ شرکت کریں گے۔ ایک وہ جن کا استعفی منظور نہیں ہوا اور دوسرے وہ جن کی حلف برداری نہیں ہوسکی۔ یہ منفرد صورت حال پہلی بار پیش آئے گی۔

حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر منتخب تو ہوگئے ہیں لیکن ان کی حلف برداری کے معاملے پر آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے اور وہ اب تک نہیں ہوپائی ہے (فوٹو: حمزہ شہباز فیس بک پیج)

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے تیسری بار ہدایات جاری کیے جانے کے باوجود گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے آج 28 اپریل کو وزیر اعلیٰ پنجاب کی حلف برداری کی تقریب منعقد کرنے کی رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔

اس ہدایت نامے کے خلاف تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے ایم پی ایز کی جانب سے انٹرا کورٹ اپیل تیار کرلی گئی ہے جو ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے مطابق آج دائر کی جائے گی۔

گورنر پنجاب کی وکلا سے مشاورت میں بھی حلف لینے سے متعلق کوئی رائے سامنے نہیں آئی ہے۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے آج بروز جمعرات ہونے والے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی۔

اسمبلی سیکرٹیریٹ کے مطابق ابھی تک نومنتخب وزیر اعلیٰ اور حکومتی اتحاد کا ایوان میں حکومتی نشستوں پر بٹھانے کا بھی امکان نہیں ہے۔

اس صورت حال میں پاکستان کے آبادی کے لحاظ سےسب سے بڑے صوبہ پنجاب میں 25 روز بعد بھی انتقال اقتدار کامعاملہ افہام وتفہیم سے طے پاتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو دورہ لاہور کے دوران بھی ایوان وزیر اعلیٰ میں سیاسی ملاقاتیں جاری رکھی ہیں۔

جبکہ نومنتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے اعلان کیا ہے کہ صدر اور گورنر جتنے مرضی بیمار پڑ جائیں وفاق کی طرح پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن جلد حکومت بنائے گی۔

چیف جسٹس کی ہدایت پر عمل درآمد کا کتنا امکان؟

تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے 17 اراکین صوبائی اسمبلی کی جانب سے اپیل تیار کرنے والے وکیل اظہر صدیق کے بقول: ’ہم نے چیف جسٹس امیر بھٹی کی گورنر اور صدر کو جاری کی گئی ہدایات کو انٹرا کورٹ اپیل میں چیلنج کرنےکی تیاری کر لی ہے۔‘

آج جمعرات کو اپیل دائر کر دی جائے گی جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے صدر اور گورنر پنجاب کو جوہدایات جاری کی ہیں وہ غیر آئینی ہیں کیوں کہ آئین کے مطابق صدر اور گورنر کو کوئی عدالت نہ حکم دے سکتی ہے نہ طلب کر سکتی ہے اور نہ ہی نوٹس جاری کر سکتی ہے۔ اس لیے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے صدر اورگورنر پنجاب کو جاری ہدایات کو منسوخ کیا جائے۔‘

اظہر صدیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپیل اپنا آئینی موقف تسلیم کرانے کے لیے دائر کر رہے ہیں ورنہ گورنر یا صدر کے لیےعدالتی ہدایات ماننا لازمی ہے نہ ہی ان کے خلاف کوئی توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’گورنر پنجاب نے بھی بدھ کی شام ہم وکلا سے مشاورت کی ہے جس میں عدالتی ہدایات پر عمل درآمد یا حمزہ شہباز سے حلف لینے کی کوئی رائے سامنے آئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گورنر پنجاب فوری حلف برداری کی تقریب منعقد کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘

اس حوالے سے گورنر پنجاب عمر سرفراز سے پوچھا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ حلف کے معاملہ پر عدالتی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانونی ٹیم سے مشاورت کر رہے ہیں اور اس کے بعد ہی واضح موقف پیش کریں گے۔

دوسری جانب گورنر پنجاب سیکریٹریٹ سے رابطہ کیا گیا تو بتایا گیا کہ ’وزیر اعلیٰ کی حلف برداری کی تقریب کے انعقاد سے متعلق انہیں کسی قسم کی ہدایات نہیں دی گئی ہیں البتہ اچانک کوئی حکم مل جائے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔‘

واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تیسری بار ہدایات جاری کر چکے ہیں اور ریمارکس میں کہا ہے کہ 25 دن سے صوبہ بغیر حکومت کے چل رہا ہے، صدر اور گورنر پنجاب آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے۔

ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کاچیلنج

سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے آج بروز جمعرات پنجاب اسمبلی اجلاس کا سیشن طلب کیا ہوا ہے جس کےایجنڈے پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف پی ٹی آئی کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتمادپر ووٹنگ بھی رکھی گئی ہے۔

سیکریٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ اجلاس کی صدارت سپیکر چوہدری پرویز الہی کریں گے اور پھر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تحریک 92 ممبران کے دستخطوں سے پیش کر کے پڑھی جائے گی۔

اس کے بعد ووٹنگ کرائی جائے گی یہ ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے ہوگی لیکن آئینی طور پر ڈپٹی سپیکر کوعہدے پربرقرار رہنے کے لیے کم از کم 186 اراکین کے ووٹ ملنا لازمی ہے۔

محمد خان بھٹی کے بقول اجلاس کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں مہمانوں کو گیلری میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی، خواتین ارکان کے بیگ چیک کر کے اندر جانے کی اجازت ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سیشن میں 16 اپریل کو جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہوا تھا اس کے بعد یہ پہلا سیشن ہے مگر ابھی تک اسمبلی سیکریٹریٹ نے حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کی ترتیب تبدیل نہیں کی اس لیے اجلاس کے دوران اگر یہ معاملہ اٹھایا گیا تو سپیکر اسمبلی اس کا فیصلہ کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا نتیجہ جاری کرنے کے بعد ڈپٹی سپیکر نے اسی دن حمزہ شہباز کو قائد ایوان قرار دے کر انہیں حکومتی بینچوں کی دعوت دی تھی اور انہوں نے خطاب بھی قائد ایوان کی نشست پر کھڑے ہوکرکیا تھا۔

پارلیمانی امور کے نامہ نگار حافظ نعیم کے بقول پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے میڈیا گیلری میں صحافیوں کے داخلے کی فی الحال اجازت کی حامی بھری گئی ہے لیکن صحافیوں کو خدشہ ہے کہ اجلاس کے موقعے پر انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں ہوگی کیوں کہ تین اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر قبل صحافیوں کے میڈیا گیلری میں داخلے پر ہابندی عائد کر دی گئی تھی اور ہنگامہ آرائی کو جواز بنا کرچند منٹ بعد اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا۔

تاہم جب ڈپٹی سپیکر نے 16اپریل کو اجلاس کی صدارت کی تو میڈیا کا داخلہ بند نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ہنگامہ آرائی کی ساری صورت حال منظر عام پر آگئی تھی۔

پنجاب اسمبلی میں دو وزیر اعلیٰ ہوں گے

پنجاب اسمبلی میں 197 ووٹ لے کر منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ  حمزہ شہباز گورنرکی جانب سے حلف نہ لینے پر عہدے کا چارج باقاعدہ نہیں سنبھال سکے۔

عبوری وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرنے والے سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے چارج نہیں چھوڑا اور گورنر نے بھی ان کا استعفی قانون کے مطابق نہ ہونے پر قبولیت سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں تو وہی بطور وزیر اعلی کام کر رہے ہیں۔

اس لیے ایوان میں آج ڈپٹی سپیکر کے انتخاب پر دونوں وزرائے اعلیٰ شریک ہوں گے جس سے یہ تنازعہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ قائد ایوان کی نشست پر کون بیٹھے گا یہ صورت حال پہلے کبھی ایوان میں دیکھنے کو نہیں ملی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست