آرٹیکل چھ ہے کیا اور اس کا اطلاق کس پر ہو سکتا ہے؟

پہلی بار آرٹیکل چھ کے تحت آئین شکنی کے الزام میں پرویز مشرف کے خلاف ن لیگ ہی کے دور حکومت میں مقدمہ چلایا گیا۔

پانچ اپریل 2022 کو اسلام آباد میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے باہر کے مناظر۔ آئین کے آرٹیکل چھ کی شق نمبر دو (الف) میں پارلیمان کو کسی بھی سنگین غداری کے اقدام کی توثیق سے روک دیا گیا ہے (اے ایف پی)

رواں ماہ کے آغاز میں جب سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت مسترد کرنے کی رولنگ دی تب سے پاکستان کی سیاسی فضا میں ہر طرف آئین پاکستان کے آرٹیکل چھ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

پہلے تو یہ بات محض بیانات اور مطالبات تک محدود تھی مگر اب کہا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت صدر مملکت، گورنر پنجاب، سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس سلسلے میں وفاقی وزارت قانون کو ریفرنس کی تیاری کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

حکومتی موقف یہ ہے کہ صدر اور سابق ڈپٹی سپیکر نے سابق وزیراعظم عمران خان کے ایما پر عدم اعتماد کی تحریک پر دستور کے مطابق ووٹنگ کروانے سے انکار کر کے اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کرکے دستور کی خلاف ورزی کی ہے جو آئین میں دیے گئے سنگین غداری کے جرم کے مترادف ہے۔

اسی طرح گورنر پنجاب نے آئین میں مذکور طریقہ کار کے مطابق منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ سے حلف اٹھوانے سے انکار کر کے ایک دستوری عمل کی تعطیل کی ہے۔

مذکورہ بالا دو افعال کے بارے میں سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے بھی جاری ہو چکے ہیں جن میں ان اقدامات کو غیر دستوری قرار دیا جا چکا ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کی دستوری تاریخ میں اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی بار آرٹیکل چھ کے تحت آئین شکنی کے الزام میں فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف ن لیگ ہی کے دور حکومت میں مقدمہ چلایا گیا۔

آرٹیکل چھ کیا ہے اور اسے آئین میں کیوں شامل کیا گیا ہے؟

عمومی طور پر دساتیر کی نوعیت اساسی ہوتی ہے اور جرم و سزا کو مذکور نہیں کرتے۔ لیکن آئین پاکستان کا آرٹیکل چھ پوری دنیا کے دساتیر میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد آرٹیکل ہے جہاں دستور میں ایک فوجداری نوعیت کے جرم کی بنیادی تعریف فراہم کی گئی ہے۔

اس آرٹیکل کا آئین پاکستان میں شامل کیے جانا دراصل پاکستان کی اس دستوری تاریخ کا نوحہ ہے جس میں پاکستان کے عوام نے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود اپنی زندگیوں کا بیشتر حصہ بغیر کسی دستوری ضمانتوں کے شخصی آمریت کے شکنجے میں گزار لیا تھا۔

1973 کے اصل دستور میں اس آرٹیکل کو آئین سازی کے لیے تجاویز دینے والی کمیٹی کی سفارشات پر اس امید پر براہ راست آئین ہی میں شامل کیا گیا تھا تاکہ آنے والے کسی فوجی طالع آزما کو جوابدہ ٹھہرایا جائے تو اس کے ليے بھی دو تہائی اکثریت کے بغیر دستور پاکستان میں ترمیم کیے بغیر اس آرٹیکل کو نکالنا ممکن نہ رہ سکے اور آئین کی بحالی کے ساتھ ہی آئین کی خلاف ورزی پر کارروائی شروع کی جا سکے۔

اس آئین کے نفاذ کے چند برس بعد پہلا مارشل لا لگا تو جنرل ضیا الحق نے آئین بحال کرنے سے پہلے اپنے قانونی مشیروں کے مشورے سے اپنے تمام اقدامات کو آئینی توثیق دے دی اور اس طرح اس آرٹیکل کے شکنجے سے بچ نکلے۔

اسی طرح پرویز مشرف نے بھی ایسا ہی ایک قدم اٹھا کر اس آرٹیکل سے بچ نکلنے کی کوشش کی جسے پہلے سپریم کورٹ اور پھر پارلیمنٹ نے ناکام بنا دیا۔

بعد میں پپلزپارٹی کی حکومت میں 2010 میں اس آرٹیکل میں مزید ترمیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی طرف سے آئین کی کسی بھی خلاف ورزی کی توثیق کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا۔

آرٹیکل چھ کی شق نمبر ایک کے مطابق کوئی فرد جو طاقت کے ذریعے، طاقت دکھا کر یا کسی دوسرے غیر آئینی طریقے سے آئین کی تنسیخ کرے، معطل کرے یا التوا میں رکھے یا ایسا کرنے کی کوشش یا سازش کرے، وہ سنگین بغاوت کا مجرم ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آرٹیکل چھ کی شق نمبر دو میں یہ کہا گیا ہے کہ ایسا فرد جو شق نمبر ایک میں بیان کردہ اقدامات پر مدد یا تعاون کرے وہ بھی سنگین بغاوت کا مجرم ہوگا۔

شق نمبر دو (الف) میں پارلیمان کو کسی بھی سنگین غداری کے اقدام کی توثیق سے روک دیا گیا ہے۔ جب کہ شق نمبر تین مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کو اس جرم میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے تحت سزا تجویز کرنے کا اختیار دیتی ہے۔

کیا موجودہ صورت حال میں اس آرٹیکل کا اطلاق ہو سکتا ہے؟

یہ ایک پیچیدہ سوال ہے جس کا کوئی سیدھا جواب ممکن نہیں۔ آئین کے اس آرٹیکل کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس کا اطلاق کسی شخص پر ہو سکتا ہے اور اپنے الفاظ میں اسے صرف فوجی آمریتوں تک محدود نہیں رکھا گیا۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد خود پارلیمنٹ کو بھی اس آرٹیکل میں مذکور کردیا گیا جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں کسی بھی رکن اسمبلی پر بھی اس کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ مگر دوسری طرف ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب یہ آرٹیکل آئین میں شامل کیا گیا تھا تو اس سے پہلے صرف فوج کی طرف سے بزور طاقت دستور کو معطل کرنے یا تنسیخ کرنے کی روایت موجود تھی۔

پھر جب اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اس آرٹیکل میں آئین کے التوا کے اقدام کو بھی سنگین غداری کے جرم کی تعریف میں شامل کیا گیا تو بھی اس کا پس منظر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے کی جانے والی آئین کی عارضی معطلی تھی۔ حکومت کا موقف یہی ہوگا کہ چونکہ آئین کے آرٹیکل میں التوا میں رکھنے کا ذکر بھی موجود ہے لہذا کسی بھی ایسے آئینی عمل کو التوا میں رکھنا جس سے کسی آئینی ادارے یا آئینی عہدے کا وجود التوا میں چلا جائے، یہ بھی سنگین غداری کے مفہوم میں آئے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی دستوری تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اعلی آئینی عہدوں پر فائز افراد نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین کو معطل کیے بغیر اہم دستوری عمل جیسے تحریک عدم اعتماد اور انتظامیہ کے سربراہ کی حلف برداری سے انکار کردیا ہو جس کا عملی نتیجہ دستور کی بہت سی شقوں کی تعطیل کی صورت میں ہی نکلا۔ مزید برآں ان کاموں کے غیر دستوری ہونے پر ملک کی اعلی عدلیہ کے فیصلے بھی آ چکے ہیں۔

لیکن اس بحث سے قطع نظر کہ سنگین غداری کے ان مقدمات کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس بات میں کوئی دو آرا نہیں کہ ایسا مقدمہ قائم کرنا آئین کے مطابق براہ راست وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

کوئی بھی عدالت یا خود پارلیمان بھی اس ضمن میں مقدمہ چلانے یا نہ چلانے کی بابت رائے دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کے تین نومبر 2007کے اقدامات کو غیر دستوری اقدامات قرار دینے کے باوجود سپریم کورٹ نے پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کے بارے میں رائے دینے سے پرہیز کیا اور بعد میں وفاقی حکومت کی طرف سے یہ مقدمہ قائم بھی ہوا اور اس پر سزا بھی سنائی گئی۔

آئین کے آرٹیکل چھ کا مقدمہ کیسے چلے گا؟

پارلیمنٹ کی طرف سے آرٹیکل چھ کی شق تین کے تحت سزا کا قانون منظور ہونے پر صدر مملکت نے ’سنگین بغاوت کی سزا کے قانون‘ پر دستخط کر ديے اور یہ تب سے نافذ العمل ہے۔

سنگین بغاوت کی سزا کے قانون کے مطابق آئین کے آرٹیکل چھ کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ سنگین بغاوت کے جرم کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کا اختیار صرف وفاقی حکومت کو حاصل ہے جو اس بارے میں ضروری تحقیقات اور مواد بھی اکٹھا کر سکتی ہے۔

اس کے فوراً بعد فوجداری قوانین کے ترمیمی ایکٹ برائے سپیشل کورٹ 1976 کے سیکشن چار کے مطابق ایک خصوصی عدالت قائم کر دی جائے گی جو اس مقدمے کو سننے کی مجاز ہوگی۔

یہ عدالت تین ججوں پر مشتمل ہوگی جو ہائی کورٹ کے موجود جج ہوں گے اور ان کے نام عدالتی فیصلوں کے مطابق متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو تجویز کرنے ہوں گے۔ حکومت یا سپریم کورٹ کے پاس اس تعیناتی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان