ہمارے پاس صرف آٹھ سال ہیں

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہمیں کاربن کے اخراج پر اگلے آٹھ سال میں قابو پانا ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو 2030 میں موسم کی تبدیلی کے ایسے واقعات پیش آئیں گے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔

10 جون 2021 کو لی گئی تصویر میں کوئٹہ سے 15 کلومیٹر دور اراق وادی میں حنا جھیل سوکھی پڑی ہوئی ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔ (اے ایف پی)

درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ایشیا میں ہیٹ ویو کا خدشہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہندو کش ہمالیہ میں گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے کا بھی خدشہ ہے۔

اکیسویں صدی کے وسط تک امو دریا، گنگا اور دریائے سندھ میں موسمی تبدیلی کے باعث شدید پانی کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اور گلوبل وارمنگ کے باعث اس صدی کے آخر تک ایشیائی ممالک میں خشک سالی میں پانچ سے بیس فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

مومسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافہ اور اس کے ساتھ گرمی میں اضافے سے خوراک کی فراہمی میں کمی اور قیمتوں اضافہ ہو گا اور اس وجہ سے جنوبی اور جنوب مشرق ایشیا میں انڈر نورشمنٹ میں اضافہ ہو گا۔ گرمی کے اضافے سے ایشیائی ممالک میں توانائی کی طلب بڑھے گی۔ ایشیا میں 13 ممالک ایسے ہیں جہاں توانائی کا استعمال بہت زیادہ ہے اور ان 13 ممالک میں سے 11 ایسے ممالک ہیں جہاں توانائی کا عدم تحفظ اور صنعتی نظام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

یہ سب باتیں اقوام متحدہ کے ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمنٹ چینج (آئی پی سی سی) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہی ہے۔

آئی پی سی سی کے مطابق گلوبل وارمنگ اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ ہم ایک اعشاریہ پانچ ڈگری کے درجہ حرارت میں اضافے کی حد کو 2030 تک عبور کر جائیں گے۔ اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ حد ہم 2040 تک پار کریں گے۔ 2019 میں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گذشتہ 20 لاکھوں سالوں سے زیادہ تھی اور گذشتہ 50 سالوں میں درجہ حرارت میں اتنی تیزی سے اصافہ ہوا ہے جو گذشتہ کم از کم دو ہزار سال میں نہیں دیکھا گیا۔

اور اس سب کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم سب ہیں۔

دنیا میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ چند ہی دہائیوں قبل جس دنیا میں ہم رہ رہے تھے اس وقت ہم اس سے کافی مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں۔ موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور ایک بار جب یہ اثرات نمایاں ہونے شروع ہو جائیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دیر ہو چکی ہے۔

ماحولیات پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈین بلسٹین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی بوتل کے جن کی مانند ہے کہ ایک بار باہر آ گیا تو واپس بوتل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آج ہی سے پوری دنیا میں کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے تب بھی جو کاربن پہلے ہی ہمارے ماحول میں ہے اس کے اثرات کافی سالوں تک رہیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئی پی سی سی کا کہنا ہے کہ ہمیں کاربن کے اخراج پر اگلے آٹھ سال میں قابو پانا ہے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سنہ 2030 میں موسم کی تبدیلی کے ایسے واقعات پیش آئیں گے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔

سائنسدان ڈاکٹر ڈیبرا بروسنن کا کہنا ہے کہ ہمارا سیارہ 20 سال پہلے والا نہیں رہا ہے اور موسمی تبدیلی کے باعث اس میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

آج کل کے شدید موسمی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں کیا ہو گا۔

پاکستان اور بھارت کو لے لیجیے۔ اس وقت دونوں ممالک کے بیشتر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں اور سندھ کے شہر جیکب آباد میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس تک پہنچنے کا امکان ہے۔  پاکستان میں 2015 میں آنے والی شدید ہیٹ ویو کے نتیجے میں 1200 سے زائد افراد چل بسے تھے۔ اسی طرح 2010 کے بعد سے بھارت میں بھی چھ ہزار 500 سے زیادہ افراد ہیٹ ویو کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔

پاکستانی محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ اس سال مارچ کا مہینہ 1961 کے بعد گرم ترین مارچ ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح بھارت میں بھی رواں برس مارچ کا مہینہ گذشتہ 122 سالوں میں سب سے زیادہ گرم ریکارڈ کیا گیا تھا۔

اور اسی لیے سائنس دان اس سال کو ’بہار کے بغیر کا سال‘ کہہ رہے ہیں۔

عالمی ادارے برائے صحت کے مطابق ہیٹ ویو ایک چھپا ہوا شدید موسم ہوتا ہے اور اس کو اکثر اتنی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ ہیٹ ویو ہزاروں جانیں لے سکتی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہیٹ ویو میں زیادہ شدت آتی جائے گی اور اس کا دورانیہ بھی لمبا ہوتا جائے گا جس سے پاکستانیوں کی جانوں کو، ان کے روزگار معاشی ترقی کو خطرہ ہے۔

سخت گرمی مزدوروں پر جسمانی اور ذہنی طور پر اثر انداز ہوتی ہے جس کے باعث ان کے کام کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 33 ڈگری سیلسیئس میں لوگوں کی کام کرنے کی صلاحیت 50 فیصد کم ہو جاتی ہے۔ اور اگر موسمی تبدیلی کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو 2030 تک دنیا بھر میں آٹھ کروڑ فل ٹائم نوکریاں ہیٹ ویو کے بھینٹ چڑھ جائیں گی۔

پاکستان کے جی ڈی پی میں زراعت کا 50 فیصد ہے اور 42 فیصد لیبر فورس زراعت کے ساتھ منسلک ہے۔  ہیٹ ویو جیسے شدید موسم سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ جیسے 2019 میں پاکستان بھر میں کپاس کی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی جب سندھ میں صرف دو تہائی کپاس کی فصل ہو سکی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی بھی ہے اور سائنس بھی۔ مسئلہ سائنس کے نہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قوت ارادی کی کمی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ