چنکارا ہرن معدومی کے راستے پر گامزن

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس شخص نے لانگ رینج رائفل سے گاڑی میں بیٹھ کر ایک ہرن کا نشانہ لگایا اور فائر ہوتے ہی ہرن زمین پر گر گیا۔

(تصویر: فارسٹ، وائلڈ لائف اینڈ فشریز ڈپارٹمنٹ خکومت پنجاب)

’مار رہا ہے‘ جواب آتا ہے ’یس‘، ’گرا؟‘ جواب آتا ہے ’یس‘، ’گِر گیا، گِر گیا‘۔ پھر آواز آتی ہے ’واٹ اے شاٹ، ڈیڈ شاٹ‘۔ ’ادھر ہی ہے، وہ پڑا ہوا ہے، چیخ رہا ہے‘۔

یہ کسی فلم کے ڈائیلاگ نہیں ہیں بلکہ ایک ویڈیو میں کی جانے والی بات چیت کے چند حصے ہیں۔ یہ ویڈیو بظاہر پر اس وقت بنائی گئی جب ایک شخص نے سندھ کے علاقے میں دو نایاب چنکارا ہرنوں کا ’شکار‘ کیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس شخص نے لانگ رینج رائفل سے گاڑی میں بیٹھ کر ایک ہرن کا نشانہ لگایا اور فائر ہوتے ہی ہرن زمین پر گر گیا۔ اس کے بعد وہ ایک اور ہرن کا نشانہ لگاتا ہے اور وہ بھی گولی لگتے ہی زمین پر گر جاتا ہے۔

پھر کیمرہ ہرن کی جانب زوم اِن ہوتا ہے اور ویڈیو میں زخمی ہرن کو کراہتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔

ویڈیو وائرل ہوتے ہی صوبہ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے نوٹس لیا اور تحقیقات کا آغاز کر دیا۔

سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے سربراہ جاوید مہر کا کہنا ہے کہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ تاہم ابھی یہ نہیں معلوم کہ سندھ کے کس علاقے میں یہ واقع پیش آیا ہے اور آیا یہ شکار قانونی طور پر کیا گیا یا غیر قانونی۔

سندھ میں کوئی گیم ریزرو نہیں ہے اور نہ ہی چنکارا ہرن کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام ہے۔ ہاں، چند نجی لائسنس یافتہ ریزروز کام کر رہے ہیں۔

گذشتہ سال مئی میں بھی پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات نے چولستان میں ایک کاروباری شخصیت کو گرفتار کیا اور اس کی جیپ سے تین چنکارا ہرن کی لاشیں برآمد کیں تھیں۔

شکار کی تاریخ بہت پرانی ہے چاہے وہ خوراک کے لیے کیا جائے یا شوق کے لیے۔

جنگلی حیات فطری حُسن کی علامت ہوتی ہے اور دنیا بھر میں نایاب جانوروں کی دیکھ بھال اور افزائش کے لیے ان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے 2020-21 میں کرائے گئے سروے میں کے مطابق پاکستان کے جنگلات میں اس وقت کل 585 چنکارا ہرن ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سروے کے مطابق خیبر پختونخوا کے علاقے منگلوٹ، پنجاب کے علاقے کالاباغ اور صحرائے چولستان سے لے کر سندھ کی کھیرتھر کی پہاڑیوں تک میں چنکارا ہرن دیکھے گئے۔

سروے کے مطابق سبی کے میدانی علاقوں، مکران، تربت اور لسبیلہ میں بھی چنکارا ہرن موجود ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق چنکارا ہرن ریتیلے اور پہاڑی و میدانی علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں واضح کمی ہو رہی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 1983 میں پسنی اور اوڑماڑہ کے درمیان 10 سے 12 چنکارا ہرن نظر آ جاتے تھے لیکن پانچ سال کے اندر ہی ان کا اتنا شکار کیا گیا کہ اسی علاقے میں مشکل ہی سے کوئی چنکارا ہرن دکھائی دیتا ہے۔

تاہم وائلڈ لائف ماہرین کا خیال ہےکہ چنکارا ہرن کی تعداد تقریباً تین ہزار تک ہے کیوں کہ چنکارا ہرن کی بڑی تعداد چڑیا گھروں، وائلڈ لائف پارکس میں ہے۔

بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے چنکارا ہرن کو معدومیت کا خطرہ لاحق نہیں ہے کیوں کہ دنیا بھر میں اس کی تعداد کافی ہے۔

تاہم پاکستان میں اس طرح سے کھلے عام چنکارا ہرن کا شکار پریشان کن ہے کیوں کہ پاکستان میں چنکارا ہرن کے شکار پر پابندی عائد ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے جنگلی حیات کو

کئی طرح سے خطرات لاحق ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ان کا بڑے پیمانے پر شکار کیا جارہا ہے اور کچھ کو بین الاقوامی تجارت یا انسانوں کے سامنے آنے کے باعث مار دینے کی وجہ سے معدومیت کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔

دوسری جانب ان کے مسکنوں نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور ان کے علاقوں کو اس طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ وہ دوبارہ جنگلی حیات کے رہنے کے لیے نہیں رہ جاتیں۔

وائلڈ لائف کی آماج گاہوں پر بڑے پیمانے میں زراعت ہو رہی ہے یا شہر پھیلتے ہوئے وہاں تک پہنچ گئے ہیں لیکن اگر حکومت کوشش کرے تو اسی وائلڈ لائف کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ایک وقت تھا جب دریائے سندھ میں محض پانچ سے چھ سو ڈولفنز رہ گئی تھی لیکن سندھ وائلڈ لائف کی محنت اور عوام آگاہی مہم کے باعث ڈولفن کی تعداد 2000 سے زیادہ ہو گئی ہے۔

شکار کا سیزن پاکستان میں 15 نومبر سے شروع ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شکاری بندوق اٹھائیں اور جہاں جانور نظر آئے شکار کر لیں۔

اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سرکاری سطح پر ایسے گیم ریزرو بنائیں جائیں جہاں شکاری ہر سال جا کر شکار کر سکیں۔

شکاریوں کو بھی معلوم ہو کہ یہ جگہ ہے جہاں شکار کی اجازت ہے اور وہ بھی اسی طرف کا رخ کریں گے۔

گیم ریزروز کو سائنسی بنیادوں پر قائم کیا جائے اور سخت مانیٹرنگ کی جائے تاکہ جن جانوروں کے شکار کی اجازت ہے صرف ان ہی جانوروں کا شکار ہو۔

وائلڈ لائف حکام اور ماہرین کے خیال میں ایسا کرنے سے غیر قانونی شکار کی بہت حد تک روک تھام ممکن ہوگی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ