خاموش تماشائی کب تک؟

تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں جنگلات کُل رقبے کا 33 فیصد تھا جو کہ 1990 میں کم ہو کر محض 3.3 فیصد رہ گیا۔ اور 2015 میں اس سے بھی مزید کم ہو کر 1.9 فیصد رہ گیا۔

13 ستمبر 2014 کی اس تصویر میں سکھر شہر کے قریب موجود بیراج میں تیرتی ڈولفن کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

پاکستان میں وائلڈ لائف جو پہلے ہی سے مشکلات کا شکار تھی اس کو مزید خطرے میں ڈالا گیا ہے۔ گذشتہ ایک دہائی میں وسیع پیمانے پر وائلڈ لائف کی فطری مسکنوں کو تباہ کیا گیا اور انسانی سرگرمیوں کے باعث ان میں تبدیلی آئی ہے۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں تیزی سے جاری جنگلات کے خاتمے اور غیر قانونی شکار اور کاروبار نے بھی پاکستان میں وائلڈ لائف کو مزید متاثر کیا ہے۔

پنجاب کا محکمہ وائلڈ لائف پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ کہ ایک طرف انسانی سرگرمیاں اور دوسری جانب موسمی تبدیلی کے باعث صوبہ پنجاب میں حیاتیات کی آماج گاہیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔

لیکن ایسا صرف پاکستان ہی میں نہیں ہو رہا کیونکہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا بھر میں وائلڈ لائف متاثر ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں مائگریٹری پرندوں میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہے پانی کی وہ جگہیں جہاں یہ پرندے آتے تھے وہ آلودہ ہو چکی ہیں اور ان میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے پینل برائے موسمی تبدیلی نے حال ہی میں دنیا کو خبردار کیا ہے کہ موسمی حدت خطرناک حد تک قابو سے باہر ہونے کے قریب ہے اور اس کے ذمہ دار انسان خود ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی میں اضافہ ہی ہو گا کمی واقع نہیں ہو گی یعنی کہ شدید گرمی کی لہر، سیلاب اور دیگر شدید موسمی واقعات جو اس وقت مختلف ممالک میں واقع ہو رہے ہیں ان میں مزید شدت آئے گی۔

پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو موسمی تبدیلی سے متاثر ہیں۔ پورتو ریکو، میانمار، ہیٹی، فلپائن کے بعد پاکستان کا نام ہے۔

ایکشن ایڈ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کے باوجود سمندری سطح میں اضافے، پانی کی قلت، زراعتی پیداوار میں کمی اور خشک سالی کے باعث خدشہ ہے کہ 2030 تک پاکستان میں چھ لاکھ افراد بے گھر ہو جائیں گے اور نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔

تاہم اگر موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دگنی یعنی بارہ لاکھ ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب جنگلات میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ صرف سندھ میں جنگلات میں تشویشناک حد تک جنگلات میں کمی ہوئی ہے اور اب سندھ میں جنگلات محض دو فیصد رہ گئے ہیں۔

اس کی بڑی وجہ جنگلات میں تجاوزات اور جنگلات کو کاٹ کر زرعت کے لیے استعمال کرنا ہے۔

 جنگلات کے تیزی سے خاتمے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تین دہائیوں میں دو لاکھ ایکڑ جنگلات کی زمین پر یا تو غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا گیا ہے یا پھر اپنے پسندیدہ لوگوں کو زراعت کے لیے الاٹ کر دیا گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موسمی تبدیلی کے باعث جنگلات پر دنیا بھر میں توجہ دی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں شاید اس کو نہ تو توجہ دی جا رہی ہے اور نہ ہی زیادہ آگاہی۔

تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں جنگلات کُل رقبے کا 33 فیصد تھا جو کہ 1990 میں کم ہو کر محض 3.3 فیصد رہ گیا۔ اور 2015 میں اس سے بھی مزید کم ہو کر 1.9 فیصد رہ گیا۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کا کہنا ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے وائلڈ لائف کو کئی طرح سے خطرہ ہے۔

 ایک تو یہ کہ ان کے مسکنوں نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور دوسری یہ کہ ان علاقوں کے اس طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ وہ دوبارہ وائلڈ لائف کے رہنے کے لیے نہیں رہ جاتیں۔

وائلڈ لائف کی آماج گاہوں پر بڑے پیمانے میں زراعت ہو رہی ہے، یا شہر پھیلتے ہوئے وہاں تک پہنچ گیا ہے۔

 دوسری جانب بہت سی وائلڈ لائف کو اس لیے خطرہ ہے کہ ان کو بڑے پیمانے پر شکار کیا جا رہا ہے اور کچھ کو معدومیت کی جانب بین الاقوامی تجارت یا انسانوں کے ساتھ سامنے کے باعث مار دینے کی وجہ سے دھکیلا جا رہا ہے۔

لیکن اگر حکومت کوشش کرے تو اسی وائلڈ لائف کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسے کہ ایک وقت تھا جب دریائے سندھ میں محض پانچ سے چھ سو ڈولفن رہ گئی تھی لیکن سندھ وائلڈ لائف کی محنت اور عوام آگاہی مہم کے باعث ڈولفن کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے

جنگلات ہماری روز مرہ کی زندگی سے لے کر وہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں کا اہم جزو ہے۔

جنگلی حیات کو خوراک سے لے کر ان کی پناہ گاہ تک جنگلات کی اہمیت کو جتنا زیادہ اجاگر کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم جنگلات کی تباہی کو خاموش تماشائی کی طرح دیکھ رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات