کشمیر میں حد بندیاں: پاکستان نے بھارتی ناظم الامور کو طلب کرلیا

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ بھارتی ناظم الامور کو طلب کر کے ایک ڈیمارچ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں حدبندی رپورٹ کشمیری مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی ایک کوشش ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ بھارتی ناظم الامور کو وزارت خارجہ بلایا گیا (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی حکومت کی قائم کردہ حدبندی کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی نئی حد بندی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے کشمیری مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ بھارتی ناظم الامور کو وزارت خارجہ بلایا گیا اور انہیں پاکستان کی حکومت کی جانب سے ’نام نہاد حد بندی کمیشن‘ کی رپورٹ کو مسترد کرنے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔

بھارتی ناظم الامور کو ایک ڈیمارچ بھی سونپا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس حدبندی کا مقصد ’بھارت کے غیر قانونی قبضے میں جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کو حق رائے دہی سے محروم اور بے اختیار کرنا ہے۔‘

بھارت نے جمعرات کو نئی حدبندیوں کی فہرست جاری کی تھی جس میں مسلم اکثریتی خطے میں ہندو علاقوں کو زیادہ نمائندگی دی گئی ہے۔

وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ بھارتی ناظم الامور کو بتایا گیا کہ حدبندی کی ’پوری مشق مضحکہ خیز تھی‘ اور اسے بھارت کے زیر انظام کشمیر میں سیاسی جماعتیں پہلے ہی مسترد کر چکی ہیں۔

ڈیمارچ میں کہا گیا کہ اس کوشش کے ذریعے بھارت صرف پانچ اگست 2019 کے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اپنے اقدام کو ’جائز‘ کرنا چاہتا ہے۔

وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ بھارتی ناظم الامور پر زور دیا گیا کہ ’نام نہاد حد بندیوں‘ کی آڑ میں حلقوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کو ان کے نقصان کے لیے کم کیا گیا ہے، جس سے بھارتی حکومت کا اصل مقصد واضح ہوتا ہے۔

بیان میں کہا گیا: ’اس نے بھارتی حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی اس دلیل کو توڑ دیا کہ حد بندی کی کوشش کا مقصد مقامی آبادی کو بااختیار بنانا تھا۔ تاہم، حقیقت میں، نئی انتخابی حدود مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو مزید کمزور، پسماندہ اور تقسیم کر دیں گی۔ یہ صرف ایک اور کٹھ پتلی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرے گا جس کو بی جے پی-آر ایس ایس اتحاد کی حمایت حاصل ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی ناظم الامور پر زور دیا گیا کہ جموں و کشمیر کا تنازع بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ایک دیرینہ آئٹم ہے۔ اور ایسے میں ’ہندو آبادی کو غیر متناسب طور پر زیادہ انتخابی نمائندگی کی اجازت دینے کی کوئی بھی غیر قانونی، یکطرفہ اور شرارتی کوشش مسلم آبادی کو نقصان پہنچانے کے لیے جمہوریت، اخلاقیات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے تحت ہندوستان کی ذمہ داریوں کا مذاق اڑاتی ہے۔‘

بیان کے مطابق اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ بھارتی حکومت کو مقبوضہ علاقے میں کسی بھی غیر قانونی آبادیاتی تبدیلیاں لانے سے گریز کرنا چاہیے اور کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے دینا چاہیے، جیسے کہ سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں درج ہے۔

عرب نیوز کے مطابق بھارتی حکومت کے مطابق حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر کے لیے 90 حلقے بنائے، جس میں اسمبلی کی 43 سیٹیں جموں میں اور 47 کشمیر میں ہوں گی، جبکہ لداخ اس میں شامل نہیں۔

اس سے قبل جموں کی بھارتی پارلمیان میں 37 اور کمشیر کی 46 سیٹیں تھیں۔

بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے جنوری میں کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں انتخابات حد بندی کے بعد جلد ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ’صورت حال معمول پر آنے کے بعد‘ خطے کی ریاستی حیثیت بحال کر دی جائے گی۔

جموں و کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی پہلے ہی کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کر چکی ہے۔ جبکہ جموں کشمیر نیشنل کانفرنس نے کہا ہے کہ وہ اس اقدام کے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے۔

ایک ٹویٹ میں اس نے کہا کہ حد بندیاں بدلنے سے زمینی حقائق نہیں بدلیں گے اور جب بھی انتخابات ہوں گے، ووٹر بی جے پی اور اس کے پراکسی کو چار سال سے ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی سزا دیں گے۔

بی جے پی کہہ چکی ہے کہ اگر وہ حکومت میں آئی تو کشمیر کی امیج اور مستقل کو تبدیل کر دے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا