امریکہ کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کی طالبان حکومت خواتین پر لگائی جانے والی حالیہ پابندیوں کو ختم نہیں کرتی تو امریکہ اس پر دباؤ بڑھانے کے لیے اقدامات کرے گا۔
طالبان نے پچھلے ہفتے نئے طرز لباس کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کی صرف آنکھیں نظر آنی چاہییں۔ افغان طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کے ہفتے کو جاری ہونے والے ایک حکم نامے میں ملک کی خواتین کو چہرہ لازمی طور ڈھانپنے کا حکم دیا گیا تھا۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے پیر کو نیوز بریفنگ میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے طالبان کی خواتین کے لباس سے متعلق حالیہ پابندی پر تبصرہ کیا۔
صحافی کے بارہا پوچھنے پر کہ امریکہ کس طرح طالبان کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق مزید سلب نہ کریں، محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ’ہم نے طالبان کے ساتھ براہ راست اس پر بات کی ہے۔‘
’ہمارے پاس بہت سے ٹولز ہیں جو ہم آگے جا کر استعمال کرسکتے ہیں، اگر ہمیں لگتا ہے کہ ان (فیصلوں) کو واپس نہیں کیا جائے گا، ان کو ختم نہیں کیا جائے گا۔‘
پرائس نے کہا: ’ہم نے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ قریبی مشاورت کی ہے۔ ایسے اقدامات ہیں جو ہم طالبان پر دباؤ بڑھانے کے لیے کرتے رہیں گے کہ وہ ان میں سے کچھ فیصلوں کو واپس لے، اور جو وعدے انہوں نے کیے ہیں ان کو پورا کیا جائے۔‘
نیڈ پرائس نے مزید وضاحت نہیں کی کہ وہ کس طرح طالبان کو یہ اقدامات واپس لینے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
امریکہ طالبان حکومت کو کنٹرول کرنے کے لیے افغان مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں میں سات ارب ڈالرز کی رقم کا سہارا لے سکتا ہے، جس میں سے نصف بائیڈن انتظامیہ افغان عوام کی مدد کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
افغان طالبان کا حالیہ فیصلہ کیا تھا؟
ہفتے کو افغانستان کی وزارت امربالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان نے دارالحکومت کابل میں نیوز کانفرنس کے دوران طالبان سربراہ ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا تھا کہ خواتین کے والد یا قریبی رشتہ دار سے ملاقات کی جائے گی اور گھر سے باہر نکلتے ہوئے چہرہ نہ ڈھانپنے والی خواتین کو بالآخر ملازمت سے برطرف یا جیل میں ڈال دیا جائے گا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ چہرے کو ڈھاپنے کا مثالی طریقہ ایسے برقعے کا استعمال ہے جو پورے جسم کو ڈھانپے۔
اس قسم کا برقع 1996 سے 2001 تک قائم رہنے والی سابق طالبان حکومت کی عالمی سطح پر علامت بن گیا تھا۔
ادھر افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ ’برقع حجاب کی ایک قسم ہے، صرف یہی حجاب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر حجاب ہیں جو تسلیم کیے جا سکتے ہیں اگر وہ جسموں کو مکمل طور پر ڈھانپ لیں۔‘
مئی کے شروع میں طالبان حکام کی جانب سے ہرات شہر میں ڈرائیونگ سکولوں کے انسٹرکٹرز سے خواتین کو لائسنس جاری نہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
جبکہ مارچ میں نئے تعلیمی سال کے موقع پر اخونزادہ نے آخری لمحات میں فیصلہ جاری کیا کہ چھٹی جماعت مکمل کرنے کے بعد لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
تعلیمی سال کے آغاز سے پہلے کے ہفتوں میں طالبان کے اعلیٰ حکام نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ تمام لڑکیوں کو دوبارہ سکول جانے کی اجازت دی جائے گی۔ اخونزادہ نے زور دے کر کہا کہ بڑی لڑکیوں کو دوبارہ سکول جانے کی اجازت دینا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔