میر جعفر غدار تھے یا نیوٹرل؟

پاکستانی سیاست میں آج کل تاریخ کی ایک اہم شخصیت میر جعفر کا بہت ذکر ہو رہا ہے، انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مختلف تاریخ دان انہیں کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

(وکی کامنز)

1691 کو دہلی میں پیدا ہونے والے میر جعفر ذات کے سید تھے۔ ان کے والد کا نام سید احمد نجفی تھا اور دادا سید حسین طباطبائی تھے جو نجف سے عراق آ کر آباد ہوئے۔ یہ خاندان اورنگزیب عالمگیر کی دعوت پر 1675 میں ہندوستان آ کر آباد ہوا۔

طباطبائی مغل دربار میں قاضی تھے اور انہوں نے اورنگزیب عالمگیر کی بھانجی سے شادی کی۔ میر جعفر کی پھوپھی اور طباطبائی کی بیٹی بیگم شرف النسا، نواب بنگال علی وردی خان کی بیوی تھیں۔

علی وردی خان ہی کے زمانے میں میر جعفر بنگال آئے۔ ہمایوں مرزا کی کتاب کے مطابق 1740 میں جب سابق نواب کا تخت الٹا گیا اور علی وردی نواب بنے تو میر جعفر نے اس کام میں ان کی بہت مدد کی۔

سپہ سالاری کے دور میں میر جعفر نے مرہٹوں کے خلاف جنگ میں بھی کامیابی حاصل کی۔ بیچ میں دو سال میر جعفر معزول رہے لیکن جیسے ہی بنگال میں حالات بغاوت والے ہوتے نظر آئے تو علی وردی نے میر جعفر کو دوبارہ سپہ سالار بنا دیا۔

پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا کے بیٹے کی کتاب ’فرام پلاسی ٹو پاکستان‘ کے مطابق مرنے سے پہلے علی وردی خان نے میر جعفر سے وعدہ لیا کہ وہ ان کے نواسے سراج الدولہ کو نواب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ میر جعفر نے وعدہ نبھایا لیکن سراج الدولہ جیسے ہی نواب بنے تو میر جعفر کو عہدے سے ہٹا دیا اور ٹھیک ٹھاک بےعزتی بھی کی۔ (اس کتاب کا ذکر رواں سال فروری میں صدر عارف علوی نے اپنی پڑھی ہوئی ہوئی 10 کتب میں کیا تھا۔)

ہمایوں مرزا پاکستان کے سابق صدر اسکندر مرزا کے بیٹے تھے اور میر جعفر ہی کے خاندان سے تھے۔

نواب سراج الدولہ اپریل 1756 میں جب بنگال کے نواب بنے تو ان کی عمر 23 سال تھی اور علی وردی خان کے بعد وہ بنگال کے آخری نواب ثابت ہوئے۔

انگریزوں سے جنگ چھڑنے لگی تو پھر سراج الدولہ کو میر جعفر یاد آ گئے چونکہ وہ ان کے بزرگوں کے زمانے سے کئی بغاوتیں کامیابی سے کچل چکے تھے اور جنگوں میں اہم فیصلہ ساز رہے تھے۔

سراج الدولہ چاروں طرف سے سازشوں کے خوف میں مبتلا تھے اور میر جعفر پہ انہیں اعتبار بھی نہیں تھا۔ میر جعفر نے انگریزوں کو یہ تک لکھا کہ ’جب میں نواب کے پاس جاتا ہوں تو مجھے قتل ہونے کا خوف ہوتا ہے۔‘ بعد میں میر جعفر پھر بغاوت کے الزام میں ملوث ہونے کے بعد قلعہ بند ہو گئے اور میر مدن نامی نائب سپہ سالار نے سراج الدولہ کی فوجی کمان سنبھالی۔

خالد احمد کے فرائیڈے ٹائمز میں چھپے ایک مضمون کے مطابق اسکندر مرزا نے صدر رہتے ہوئے کبھی اپنے شجرے پر بات نہیں کی چونکہ انہیں ہمیشہ اس پر شرمندہ ہونا ہی سکھایا گیا تھا لیکن بعد میں ہمایوں مرزا نے اپنی کتاب فرام پلاسی ٹو پاکستان میں اس معاملے کی ساری تفصیل ڈھونڈ کر بیان کی۔

تو ہمایوں مرزا کہتے ہیں کہ میر جعفر کے پاس سراج الدولہ کے خلاف بغاوت میں شامل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ایک تو ہر وقت کی بےعزتی اور پھر مسلسل قتل ہو جانے کا خوف!

ولیم ڈیل رمپل اور ہمایوں مرزا کے مطابق میر جعفر نے پلاسی کی جنگ سے تین دن پہلے انگریزوں کو خط لکھا کہ چاہے انگریز جیتیں یا سراج الدولہ، وہ نیوٹرل رہیں گے۔

اب جنگ شروع ہوئی۔ مین کمانڈ میر مدن کے پاس تھی۔ باقی اتحادی کمانڈرز میں میر جعفر بھی شامل تھے۔ پہلے تو فوجیوں نے بڑھنے سے انکار کیا کیوں کہ ان کو تنخواہیں نہیں ملی تھیں۔ وہیں معاملہ کلئیر ہونے اور پیسے دینے کے بعد فوجیں بڑھیں، جنگ شروع ہوئی تو سراج الدولہ خود جنگ میں شریک بھی نہیں ہوئے۔

بیچ جنگ میں بارش شروع ہو گئی۔ یہ سمجھے کہ گوروں کی توپیں اور اسلحہ بھیگ گیا ہو گا، انہوں نے چڑھ کے حملہ کیا لیکن انگریزوں نے ترپالیں ڈال کے سب کچھ چلنے کے قابل رکھا ہوا تھا۔ میر مدن مارے گئے، باقی سالاروں کو سراج الدولہ نے کافی مشوروں کے بعد پسپائی کا حکم دیا، جب انگریز حملہ آور ہوئے تو سراج الدولہ میدان سے فرار ہو گئے۔ میر جعفر اور ان کی فوج جنگ میں حصہ نہ لینے سے محفوظ رہی۔

مورخ ولیم ڈیل رمپل کے مطابق میر جعفر صرف ایک ایسا چہرہ تھے جو سامنے تھا ورنہ پیچھے کئی درباری اور نواب سراج الدولہ کے اہم عہدے دار موجود تھے۔ ہاں انہوں نے یہ ضرور لکھا کہ انگریزوں نے جب بارش میں حملہ کیا تو میر مدن کے مرنے پر میر جعفر نے اپنی فوجیں فرار کروا دیں اور ان کو دیکھ کے باقی فوج بھی فرار ہو گئی۔

کچھ مورخین نے یہ بھی لکھا کہ میر جعفر سے مشورے کے بعد سراج الدولہ نے جنگ روکنے کا فیصلہ کیا لیکن فیصلہ بہرحال نوجوان نواب کا تھا۔

جون 1757 میں جنگ ہارنے کے بعد 24 سال کے نواب سراج الدولہ جہاں چھپے وہاں سے جولائی 1757 میں ایک مخبری پر میر جعفر کے داماد میر قاسم کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔

میر جعفر ’ہسٹری آف ملٹری ٹرانزیکشن آف دی برٹش نیشن ان اندوستان‘ نامی کتاب کے مطابق اپنے مشیروں سے صلاح لے رہے تھے کہ سراج الدولہ کو ملک سے باہر (یا ملک میں ہی) قید رکھا جائے یا سزائے موت دی جائے کیوں کہ اس معاملے میں ان کی اپنی کوئی خاص رائے نہیں تھی لیکن میر جعفر کا 17 سالہ بیٹا سو فیصد سراج الدولہ کو مارنے کے حق میں تھا۔ میر میراں جعفر نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے اسی رات  نواب سراج الدولہ کو قتل کروا دیا۔

تاریخ دانوں نے میر جعفر کو لائق سپہ سالار لیکن نااہل حکمران لکھا ہے۔

میر جعفر کو جنگ پلاسی کے بعد انگریزوں نے حکمران بنایا لیکن بہت جلد انہی انگریزوں سے میر جعفر کو ’دی اولڈ فول‘ اور ان بیٹے میران کو ’دی ورتھ لیس ینگ ڈاگ‘ کا خطاب ملا اور بنگال کی سلطنت تیزی سے رو بہ زوال ہونے لگی۔ پانچ فروری 1765 کو میر جعفر کا انتقال ہوا۔ ان کی تینوں بیویوں، شاہ خانم، ببو بیگم اور راحت النسا بیگم نے ان کے بعد وفات پائی۔ تاریخ میں ان کی موت کے وقت 12 بیٹوں اور بیٹیوں کا ذکر ملتا ہے جب کہ میر میراں ان کی زندگی میں ہی اپنی انتقامی پالیسیوں کے باعث قتل ہو چکے تھے۔ 

انگریز اس جنگ کے بعد 180 برس تک ہندوستان پر حکمران رہے۔

علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں بھی اسی جانب اشارہ کیا تھا اور ان کا یہ اشارہ بہرحال میر جعفر کی غداری پہ مہر لگانے کے مترادف قرار پایا۔ 

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ ملت، ننگِ دین، ننگِ وطن

میر جعفر کو غدار اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ انہوں نے سپہ سالاری سے معزول ہونے کے بعد اپنے حکمران کے خلاف انگریزوں سے مدد مانگی اور اس کے بدلے دوسرے کئی مقامی سرداروں کے تعاون سے انہیں ایک تگڑی رقم کی آفر دی۔ 

حکمران میں خود کیا کمزوریاں تھیں؟ سلطنت کے فوجی صرف پیسے کے لیے لڑتے تھے یا وفادار تھے؟ حکمرانی کی جنگ میں کیا اس سے پہلے اور بعد میں یہ سب کچھ نہیں ہوا؟ یہ سب وہ سوال ہیں جن کا جواب تاریخ کی کتابوں میں باآسانی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مضمون لکھنے میں درج ذیل کتابوں سے مدد لی گئی۔

A History Of The Military Transactions Of The British Nation In Indostan
The Anarchy: The East India Company, Corporate Violence, and the Pillage of an Empire
From Plassey to Pakistan: The Family History of Iskander Mirza, the First President of Pakistan 
Mir Jafar Thru The Eyes Of A Descendant

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ