فلسطینی صحافی کا قتل: عرب ممالک کا تحقیقات کا مطالبہ

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے قتل کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے اور یورپی یونین، امریکہ سمیت اقوام متحدہ میں عرب ممالک نے مشترکہ طور پر واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

11 مئی 2022 کو مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی شہری فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے قتل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

 مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں الجزیرہ سے منسلک فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے قتل کے بعد اقوام متحدہ میں عرب گروپ نے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

 خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو کے مطابق اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے عرب ممالک کی جانب سے ایک مشرکہ اعلامیہ پڑھا۔ اس موقع پر ان کے ساتھ کویت کے مستقل مندوب اور لیگ آف عرب سٹیٹس کے مستقل مبصر بھی موجود تھے۔

ایک جانب نیو یارک میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے کہا: ’نیو یارک میں عرب گروپ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں قابض اسرائیلی حکام کے اس مجرمانہ فعل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ واقعے کی بین الاقوامی سطح پر آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں اور اس جرم کے ذمہ داروں کو سزا دلوائی جائے۔‘

دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے واشنگٹن میں بھی شیرین ابو عاقلہ کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔

ایک پریس بریفنگ میں نیڈ پرائس کا کہنا تھا: ’ہم فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے قتل اور ان کے پرڈیوسر علی الصمودی کے مغربی کنارے میں زخمی ہونے پر دل گرفتہ ہیں۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا: ’ہم فوری اور مکمل تحقیقات سمیت احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

یورپی یونین کے نمائندے سوین کوہن وون برگزڈورف نے شیرین کے خاندان سے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم فوری اور آزادانہ تحیقات کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔‘

اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔

اے پی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے فلسطینی حکام سے مطالبہ کیا کہ شیرین کو لگنے والی گولی ان کے حوالے کی جائے۔

اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا: ’ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا ہوا۔ فی الحال میرے پاس حتمی نتیجہ نہیں ہے۔ جو ہوا اس پر مجھے افسوس ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم فیصلہ کن طور پر اس معاملے کی مکمل تحقیقات کروانے کے لیے تیار ہیں اور امید کرتے ہیں کہ فلسطینی حکام کا تعاون بھی ملے گا۔ خون کے نمونوں کی رپورٹ اور فرانزک جانچ کے بغیر یہ جاننا کہ موقعے پر کیا ہوا بہت مشکل ہو گا۔‘

یاد رہے کہ شیریں ابو عاقلہ کے قتل کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے ان کی موت کی ذمہ دار فلسطینی جنگجوؤں کی جانب سے چلائی جانے والی گولی کو قرار دیا تھا۔ تاہم بعد ازاں فوجی چیف لیفٹینینٹ جنرل افیف کوہافی اس بیان سے پیچھے ہٹ گئے اور موقف اختیار کیا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ جان لیوا گولی کس نے چلائی۔

اے پی کی رپورٹ کے مطابق شیریں ابو عاقلہ کی موت سے اسرائیلی فوج میں انصاف کے نظام کی نئی جانچ کا آغاز ہو سکتا ہے جو پہلے سے جنگی جرائم کے زمرے میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں زیر تفتیش ہے۔

اس سے اسرائیلی فوج اور بین الاقوامی میڈیا کے درمیان پہلے سے موجود تلخ تعلقات مزید خراب بھی ہو سکتے ہیں۔

شیریں ابو عاقلہ کون تھیں؟

شیریں ابو عاقلہ کی عمر 51 سال تھی۔ وہ الجزیرہ کے عربی چینل پر اسرائیل کے فلسطین میں سخت اقدامات کی رپورٹنگ کی وجہ سے عربی بولنے والے خلیجی ممالک میں مشہور تھیں۔

وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک مشہور شخصیت تھیں اور ان کا تعلق فلسطین کے ایک مسیحی خاندان سے تھا۔ ان کے پاس فلسطین کے ساتھ ساتھ امریکی شہریت بھی تھی۔

بدھ کو شیرین ابو عاقلہ کے قتل کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے۔

کچھ شہری فلسطینی پرچم اور شیرین کی تصاویر اٹھائے ان کے گھر کے باہر بھی جمع ہوئے اور ان کے خاندان سے اظہار ہمدردی کیا۔

شیرین ابو عاقلہ کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے ان کی میت کو فلسطینی پرچم میں لپیٹ کر لایا گیا جہاں دو پادریوں نے ان کے لیے آخری کلمات ادا کیے۔

اس موقع پر ایک شہری نے غزہ کے ساحل پر ریت کے ساتھ شیریں ابو عاقلہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کا نام کندہ کر دیا جس کے ساتھ ان کی تصویر بھی تھی جس پر جلی حروف سے عربی میں لکھا تھا ’وتبقی الحقیقہ‘ یعنی ’اور سچ باقی رہتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا