ڈیرہ بگٹی میں ہیضے کی وبا: ’کاش ہم مدد کا کام پہلے شروع کرتے‘

بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیر کوہ میں ہیضے کی وبا سے مقامی طور پر 22 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا جارہا ہے جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے صرف چھ ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔

ہیضے کی وبا کے دوران اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کی مدد کرنے والے شیر باز بگٹی کا کہنا ہے کہ اگر یہ کام پہلے کیا جاتا تو اتنے لوگ متاثر نہ ہوتے (تصویر: شیرباز بگٹی)

بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیر کوہ میں ہیضے کی وبا سے مقامی طور پر 22 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا جارہا ہے جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے صرف چھ ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔

 صوبائی حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے منگل کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب تک چھ ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ 2400 کے قریب مریض ہسپتال لائے گئے تھے، جنہیں طبی امداد دی گئی۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے میں صورت حال قابو میں ہے۔ علاج معالجے کے لیے محکمہ صحت کا عملہ موجود ہے، روزانہ کی بنیاد پر او پی ڈی ہو رہی ہے اور ادویات کی وافر مقدار پہنچادی گئی ہے۔ اس کے ساتھ لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی بھی جاری ہے۔ 

دوسری جانب ہیضے کی وبا کے دوران اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کی مدد کرنے والے شیر باز بگٹی کا کہنا ہے کہ اگر یہ کام پہلے کیا جاتا تو اتنے لوگ متاثر نہ ہوتے۔

شیر باز بگٹی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب ہم نے لوگوں کی مدد شروع کی اور انہیں پانی فراہم کرنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ شاید ہم یہ کام پہلے کرتے تو اتنے سارے لوگ متاثر نہ ہوتے۔‘ 

شیر باز بگٹی کہتے ہیں کہ ’جب میں پیر کوہ گیا تو دیکھا کہ ہر طرف مایوسی پھیلی ہے۔ پانی کی قلت ہے اور اس پر جلتی پر تیل کا کام جوہڑوں کے آلودہ پانی نے کیا۔‘

شیر باز نے بتایا کہ ’پہلے لوگ پانی تلاش کرتے تھے۔ اب اپنے گھر کے مریضوں کے علاج کے لیے بھی خوار ہونا پڑ رہا تھا۔‘

انہوں نے بتایا: ’یہ مناظر انتہائی دردناک کہانیوں سے بھرے تھے۔ غربت، علاج کی سکت کا نہ ہونا اور اوپر سے پانی بھی میسر نہ ہو تو اس صورت حال کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے، جس کو خود کبھی ایسی صورت حال کا سامنا رہا ہو۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جب ہم لوگ ان کی مدد کو پہنچے تو نہ صرف ان کے دکھ کم ہوئے بلکہ ان کے حوصلوں میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ وہ ہمیں اپنا دکھ درد بھی بتاتے تھے۔‘

مزید پڑھیے: پیر کوہ ڈیرہ بگٹی میں ہیضے کی وبا

پیرکوہ میں 14 اپریل سے پھیلنے والی ہیضے کی وبا سے اب تک سینکڑوں لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ سیکرٹری صحت صالح محمد ناصر نے ڈیرہ بگٹی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ’پہلے ہم لوگ مجموعی طور پر صورت حال کی رپورٹنگ کررہے تھے۔ اب مریضوں کو مختلف امراض کے حوالے سے الگ کردیا گیا ہے۔‘

صالح محمد ںاصر نے بتایا کہ ’15 مئی کو ہیضے کے 35 کیسز سامنے آئے۔ اس کے علاوہ دیگر امراض کے مریض بھی ہسپتالوں میں لائے گئے ہیں۔‘ 

انہوں نے کہا: ’یکم مئی کو ہم نے صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کرکے قریبی اضلاع سے بھی ٹیموں کو طلب کرلیا ہے۔‘

مسئلہ کتنا پرانا ہے؟

 شیر باز کہتے ہیں کہ ’آئل اینڈ گیس کمپنی (او جی ڈی سی ایل ) جیسی بڑی کمپنیوں کی عدم توجہی کے باعث پیر کوہ جو 70 سال سے پاکستان کو گیس فراہم کررہا ہے۔ آج اس کے باسی پانی کو ترستے ہیں۔‘

 انہوں نے بتایا کہ ’اس علاقے میں پانی کی فراہمی کے لیے ایک پائپ لائن تھی، جو سابق وزیراعلیٰ نواب اکبر بگٹی کے دور میں بچھائی گئی تھی۔ اس کے بعد اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔‘

 شیر باز کہتے ہیں کہ ’جب ہم نے کام شروع کیا تو اس وقت 22 افراد ہلاک ہوچکے تھے اور جنہیں طبی سہولت دی گئی، ان کی تعداد تقریباً چار ہزار کے قریب ہے۔ 

 ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پانی کا مسئلہ گذشتہ دس سالوں سے وقتاً فوقتاً سرا ٹھاتا رہا، لیکن رواں سال بارش اور وبا نے پورے علاقے کو متاثر کردیا۔ جو بھی حکومتیں آئیں انہوں نے مسئلے کے مستقل حل کی طرف توجہ نہیں دی۔‘  

تاہم او جی ڈی سی ایل کی ویب سائٹ پر موجود کارپوریٹ سوشل رسپانسیبیلیٹی (سی ایس آر) کے سیکشن میں لکھا ہے کہ کمپنی فعال طور پر دیگر علاقوں سمیت پیر کوہ میں بھی ٹینکروں، ٹیوب ویل کھود کر اور پریشر پمپس لگا کر پانی پہنچاتی ہے۔

او جی ڈی سی ایل کمپنی کی ویب سائٹ پر پانی مہیا کیے جانے والے جن علاقوں کے نام موجود ہیں، ان کی ترتیب کچھ یہ ہے: لوتی، پیر کوہ، ٹنڈو عالم، دارو، ساری، ہنڈی، تھل، راجیان، چک نورنگ، ڈھوڈک، چندا اور نشپا۔

 بنیادی مسئلہ کیا ہے؟

 شیر باز نے بتایا کہ ’پیرکوہ کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے اور دوسرا یہ ہے کہ لوگوں کے پاس ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’لوگ مشکیزے میں پانی جمع کرتے ہیں۔ جو کچھ وقت کے بعد ختم ہوجاتا تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم نے انہیں ڈرم فراہم کیے تاکہ جو بھی پانی انہیں ملے وہ کچھ عرصے تک اسے محفوظ رکھ سکیں۔ پہلے وہ پانی ختم ہونے پر دوبارہ اسی گندے جوہڑ سے پانی لانے پر مجبور تھے۔‘

شیر باز نے بتایا کہ ’سوشل میڈیا پر ہماری مہم سے ہمیں تقریباً 20 لاکھ روپے ملے جبکہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہمیں ڈیرہ بگٹی کے دکانداروں اور تاجروں نے چندہ دیا۔‘

آئی جی فرنٹیئر کور نارتھ کا دورہ پیر کوہ

دوسری جانب آئی جی فرنٹیئر کور (ایف سی) نارتھ میجر جنرل محمد یوسف مجوکہ نے بھی پیر کوہ کا دورہ کیا جہاں انہیں سول انتظامیہ کی جانب سے وبا پر قابو پانے کے لیے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔ 

دورے سے متعلق جاری کیے گئے بیان کے مطابق آئی جی ایف سی نے متاثرہ لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی تلقین کی- 

آئی جی ایف سی میجر جنرل محمد یوسف کو بتایا گیا کہ ’26 واٹر بوزر مقامی لوگوں کو صاف پانی فراہم کر رہے ہیں۔ پیر کوہ واٹر سپلائی سکیم کے منصوبے کے لیے 30 کروڑ روپے جاری ہو چکے ہیں جس کو جلد مکمل کیا جائے گا۔‘ 

دوسری جانب بلوچستان حکومت نے علاقے میں 20 بستروں پر مشتمل ہسپتال قائم کردیا ہے، جہاں علاج کی تمام سہولیات موجود ہیں۔

بنیادی صحٹ یونٹس کا بوجھ بانٹنے کے لیے پیر کوہ میں موجود او جی ڈی سی ایل کے دفتر کی عمارت میں بھی خصوصی ہیضہ یونٹ قائم کیا گیا ہے جب کہ تین اضافی ایمبولینس گاڑیاں بھی مستعد کھڑی ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی چھ رکنی ٹیم بھی جان بچانے والی ادویات لے کر پیرکوہ پہنچ گئی ہے اور آلودگی کے ذرائع کا پتہ لگانے کے لیے اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔  

آبی ذخائر کی صفائی اور پانی کی کلورینیشن کا کام شروع ہو چکا ہے جو کہ جلد مکمل ہو جائے گا۔ 

سول انتظامیہ کی جانب سے سوشل میڈیا آگاہی مہم بھی شروع کی گئی ہے اور ہنگامی ٹول فری نمبر مقامی لوگوں کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔ 

عوام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے پیر کوہ کے علاقے میں ایک تازہ بور کی کھدائی شروع کر دی گئی ہے جبکہ پتھر نالے میں تازہ بور کے لیے کھدائی جلد ہی شروع ہو جائے گی۔

مروجہ بیماری کو مدنظر رکھتے ہوئے ایف سی بلوچستان (نارتھ) اور ویلفیئر ہسپتال سوئی کی طرف سے فری میڈیکل کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں سے ضروری ادویات فراہم کی جارہی ہیں اور ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف خدمات انجام دے رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت