سیاست دان ہی نہیں، ہر کوئی سیاست کر رہا ہے

ایک عام آدمی کا اس سیاسی بندوبست میں صرف اتنا کردار ہے کہ اسے بظاہر اپنا آقا منتخب کرنے کی آزادی ہے اور وہ بھی جزوی طور پر۔ حکومت ایک ہی طبقے کی ہوتی ہے، انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں۔

کوئٹہ میں 25 جولائی 2018 کو شہری ایک پولنگ سٹیشن میں ووٹ ڈال رہے ہیں۔ عام آدمی نہ ہماری سیاست کا موضوع ہے نہ اس کا سٹیک ہولڈر۔  (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے۔

 

پاکستان کی سیاست کا عوام کی خوشیوں اور غموں سے بھی کوئی تعلق ہے یا یہ محض مالِ غنیمت کا جھگڑا ہے اور جنگجو کمانوں میں زبان چڑھائے پھرتے ہیں؟

سنتے تھے: سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اب سوچتے ہیں سینے میں دل بھلے نہ ہو، آنکھ میں کچھ حیا تو ہوتی۔ بدزبانی کا آسیب یوں معاشرے میں اترا ہے، ہر قدر اور ہر روایت پامال ہو چکی۔ منیر نیازی یاد آتے ہیں: زوالِ عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں۔ منیر نیازی زندہ ہوتے تو ان سے پوچھتا، کیا کوفے کے گداگربھی زبان پر آتش فشاں لیے پھرتے تھے؟

سوال یہ ہے کہ اس معاشرے کو کیا ہو گیا ہے؟ اور جواب یہ ہے اس معاشرے کو سیاست ہو گئی ہے۔ اہلِ سیاست کی شکل میں اس کشمش کے کچھ کردار تو معلوم ہیں لیکن گاہے یوں محسوس ہوتا ہے یہاں صرف سیاست دان ہی سیاست نہیں کر رہے، یہاں ہر طرف سیاست ہو رہی ہے۔ سماج میں کوئی ایسا جزیرہ باقی نہیں رہا جس کے باسیوں نے اپنا دامن سیاست سے آلودہ نہ کیا ہو۔ توکیا ایک ریاست ان رویوں کی متحمل ہو سکتی ہے جہاں سبھی کشمکش کی سیاست میں فریق ہوں؟ پھر خیال آتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے سوالات کا جواب بھی صرف سوالوں ہی میں ملتا ہے۔

کوہ سلیمان جل اٹھا، میلوں پر پھیلے چلغوزے کے جنگلات جل کر راکھ ہو گئے۔ دیر کے جنگلوں میں آگ لگی ہے۔ پانی کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی ادارے کہہ رہے ہیں کہ اگلے دو سال میں پاکستان میں پانی کا بحران ایسا خوفناک ہو سکتا ہے کہ قحط کا خطرہ پیدا ہو جائے لیکن کیا کبھی کسی سیاسی جماعت نے کسی بھی سطح پر اس خطرے کو اپنا موضوع بنایا؟ آتے ہیں، خطاب کرکے ماحولیاتی آلودگی پھیلاتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے۔

نیم خواندہ معاشرے میں وزیر اعظم بادشاہ ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ کارکردگی کا سوال ہی نہیں اٹھاتا۔ اسے مطمئن کرنے کے لیے دو چار جھوٹ اور تھوڑی سی جذباتیت کافی ہوتی ہے۔ چنانچہ تین سال سے زیادہ عرصے کے اقتدار کے بعد کارکردگی کا جواب دینے کی بجائے اہلِ ہنر ’سازش‘ کی دہائی دیتے ہیں اور عقل و شعور کو تصویر جیسی چُپ لگ جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئے وزیر اعظم بھی ’یا ہنر‘ کہہ کر میدان میں اترے ہیں۔ اخبارات اشتہارات سے بھرے پڑے ہیں کہ 28 مئی کے ان دھماکوں کی یاد میں، جنہیں 24 سال ہو چکے، پورے 10 دن کی تقاریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ یہ گویا ’امریکی سازش‘ کے مطلع پر مقطع کہا جا رہا ہے کہ ہم تو خود ’ساشے پیک‘ کے ٹیپو سلطان ہیں جو ایٹمی دھماکوں کے وقت امریکی دباؤ کے آگے ڈٹ گئے تھے۔ ملکی مسائل کی نوعیت کی سنگینی دیکھیے اور جناب وزیر اعظم کی چشم بصیرت کے کمالات دیکھیے۔ معاشرے کی شرح خواندگی بہتر ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ 1998 کے دھماکوں کی یاد میں 2022 میں پورے 10 دن تقاریب برپا کی جاتیں؟

کبھی کبھی تو حسرتیں ہجوم کرتی ہیں کہ کاش اس سماج کی شعوری سطح کچھ بہتر ہوتی اور ہمارے اہل سیاست اس سطحی اور جذباتی واردات کی بجائے کوئی سنجیدہ، متوازن اور قابل عمل بیانیہ سامنے لاتے۔ ہماری سیاست نے تعمیر کی بجائے ہیجان اور استحصال کو بہترین حکمت عملی قرار دے رکھا ہے۔ جن نعروں کی خانہ خرابی سے سنجیدہ لوگوں کی طبیعت بوجھل ہو جائے وہ نعرے یہاں عزیمت اور حریت کا عنوان بنا دیے جاتے ہیں۔

اس ہمہ جہت استحصال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ داخلی سیاست ہی نہیں امور خارجہ  سے لے کر تزویراتی امور تک سب کچھ بھی بازیچہ اطفال بن چکا ہے۔ لوگ پوری سنجیدی سے سمجھتے ہیں کہ بس ایک اچھا رہنما آ جائے تو ہم ہر ہفتے ایک براعظم فتح کر سکتے ہیں۔ مادی لوازمات کی تو حاجت ہی نہیں کیونکہ یہ تو کم بخت کافر ہے جسے شمشیر پر بھروسہ ہوتا ہے، مومن تو بے تیغ لڑتا ہے۔ صنعتی ترقی بھی غیر ضروری ہے کیونکہ یورپ کی ان مشینوں سے ہمارا کیا واسطہ؟ یہ تو بد بخت ابلیس ہے جسے یورپ کی مشینوں کا سہارا ہے۔

صحت، تعلیم، روزگار، امن، انصاف جیسے موضوعات یہاں کم ہی زیر بحث آتے ہیں۔ شعر و ادب، آرٹ کلچر سب کو سیاست نے چاٹ لیا۔ کوئی اچھی فلم بن رہی ہے نہ ڈراما۔ اہل سیاست ناظرین کی تمام جبلتوں کی تسکین کر رہے ہیں۔ یہ ٹاک شوز میں لڑتے ہیں، جلسوں میں بد زبانی کرتے ہیں، ہمہ وقت تھیٹر چل رہا ہے۔ ہماری سیاست ’مودی کے یار‘، ’یہودی ایجنٹ‘، ’امریکی سازش‘، ’ملک دشمن‘، ’غدار‘ جیسے متعفن الزامات سے سجی ہے۔ یہاں اپنی خوبیوں پر کوئی نہیں جیتا، سب دوسروں کی خامیوں پر زندہ رہنا چاہتے ہیں۔

’گڈ گورننس‘ کے نام پر ایسی بچگانہ حرکتیں کی جاتی ہیں کہ بے زاری ہونے لگتی ہے۔ کہیں ایک واٹر کولر رکھ کر اس کے پیچھے وزیر اعلیٰ کی تصویر والا بینر لگا دیا جاتا ہے کہ دیکھیے وزیر اعلی صاحب کے ویژن کے تحت ٹھنڈا پانی پیتے جائیے، تو کہیں وزیر اعلی صاحب پبلک ٹائلٹ کے باہر لگے بینر پر تشریف فرما ہوتے ہیں کہ حوائج ضروریہ کے بعد ہماری بندہ پروری کو بھی عزت دیتے جائیے۔ کہیں کوئی واردات ہو جائے تو قوم کو نوید دی جاتی ہے وزیر اعلی یا وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا۔ یہ نوٹس وہ کیوں اور کیسے لیتے ہیں اور قانون کی کس دفعہ کے تحت لیتے ہیں، یہ خود ان کو بھی معلوم نہیں۔ کیا تعزیرات پاکستان میں کہیں لکھا ہے کہ جب تک وزیر اعلی نوٹس نہ لیں پولیس نہ ایف آئی آر درج کرے گی نہ تفتیش شروع کرے گی؟

عام آدمی نہ ہماری سیاست کا موضوع ہے نہ اس کا سٹیک ہولڈر۔ وہ اپنی صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر کوئی سیاسی منصب حاصل کر لے، یہ ناممکنات میں سے ہے۔ پارلیمان کے دروازے اس پر بند ہیں۔ ان دروازوں پر لگے آہنی تالے لوگوں کی قابلیت سے نہیں، ان کی تجوری سے کھلتے ہیں۔

ایک عام آدمی کا اس سیاسی بندوبست میں صرف اتنا کردار ہے کہ اسے بظاہر اپنا آقا منتخب کرنے کی آزادی ہے اور وہ بھی جزوی طور پر۔ حکومت ایک ہی طبقے کی ہوتی ہے، انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں۔ اس بندوبست پر سب کا اتفاق رائے ہے چنانچہ آج تک کسی سیاسی جماعت سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ اتنے جلسوں کے اخراجات کہاں سے پورے کیے؟

اشرافیہ کے اس نظام کی کامیابی دیکھیے کہ عام آدمی کبھی اپنی محرومیوں اور مسائل پر بات ہی نہیں کرتا۔ وہ اس سے بے نیاز ہے کہ اس کے بچوں کا کیا مستقبل ہے، البتہ وہ سیاسی قیادت اور اس کے بچوں کے غم میں سارا سارا دن سوشل میڈیا پر بحث کرتا پایا جاتا ہے۔ بینکوں کے باہر اور ہسپتال کی طویل قطار میں شدید گرمی میں کھڑے لوگ بھی اپنی حالت زار پر بات کرنے کی بجائے عمران خان، نواز شریف اور بلاول بھٹو کے لیے پریشان ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ سماجیات کے ماہرین کو اس رویے کا سنجیدہ مطالعہ کرنا چاہیے۔

کہیں پڑھا تھا، ہر رہنما اپنے حصے کے بے وقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ تو کیا ٹھیک پڑھا تھا؟


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ