لانگ مارچ: سپریم کورٹ نے سات سوالوں کے جواب طلب کر لیے

عدالت نے اہم سوالات کے جوابات قانون نافذ قانون کرنے والے اداروں سے طلب کرتے ہوئے تحریر کیا کہ تمام ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا کہ عدالت کی حکم عدولی ہوئی ہے یا نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے بعد 25 مئی 2022 کو راولپنڈی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار سڑک پر موجود موٹر سائکلوں کے پاس سے گزر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے 25 مئی کو ہونے والے احتجاج سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔

عدالت نے اہم سوالات کے جوابات قانون نافذ قانون کرنے والے اداروں سے طلب کرتے ہوئے تحریر کیا کہ تمام ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا کہ عدالت کی حکم عدولی ہوئی ہے یا نہیں۔

عدالت نے آئی جی پولیس، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی جی آئی بی اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ایک ہفتے میں اہم سوالوں کے جواب طلب کر لیے۔ سیکرٹری وزارت داخلہ سے بھی ایک ہفتے میں ان سوالوں کے جواب طلب کر لیے۔

سپریم کورٹ کے اداروں سے سوالات؟

عدالت نے تحریری فیصلے میں پوچھا کہ کیا حکومت کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی گئی؟

کیا انتظامیہ اور پولیس نے کارکنوں کے خلاف کوئی ایکشن لیا؟

کیا مظاہرین ریڈ زون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟

ریڈ زون کی سکیورٹی کے انتظامات کیا تھے؟

ایگزیکٹو حکام کی جانب سے سکیورٹی انتظامات میں کیا نرمی کی گئی؟

کیا سکیورٹی کے لیے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو توڑا گیا؟

کیا مظاہرین یا پارٹی ورکر جی نائن اور ایچ نائن گراونڈ میں گئے؟

اس کے علاوہ عدالت نے زخمی، گرفتار اور اسپتال میں داخل ہونے والے مظاہرین کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

12 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا جس میں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی قیادت اور مظاہرین نے احتجاج ختم کردیا ہے۔

لانگ مارچ کے ختم ہونے کے بعد تمام شاہراہوں کو کھول دیا گیا جس کے بعد آزادانہ نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی اس لیے عدالت درخواست دائر کرنے کا مقصد پورا ہو چکا ہے۔ اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کو نمٹایا جاتا ہے۔

سیاق و سباق

واضح رہے کہ 25 مئی کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے راستوں کی بندش کے خلاف دائر درخواست پر تمام گرفتار کارکنان کو رہا کرنے اور حکومت کو جلسہ گاہ میں سکیورٹی فراہم کرنے کا بھی حکم دیا تھا جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

عدالت نے سری نگر ہائی وے پر ٹریفک کے بہاؤ میں خلل نہ ڈالنے کی ہدایت بھی کی تھی۔

عدالت نے حکم دیا تھا کہ مظاہرین پرامن رہیں گے، املاک کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

پولیس پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے نہ مارے لیکن بعد ازاں 25 مئی کو سپریم کورٹ کے حکم کے بعد تحریک انصاف نے ڈی چوک پر آنے کا اعلان کیا تو ریڈ زون میں مظاہرین کے داخلے جلاؤ گھیراؤ کے خلاف وفاق نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی جس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی تھی۔

اس درخواست کو چیف جسٹس نے یہ کہتے ہوئے نمٹا دیا تھا کہ پی ٹی آئی کے تمام جلسے پر امن تھے۔ پی ٹی آئی پچھلے کچھ عرصے میں 33 جلسے کرچکی ہے۔ توقع ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنی ذمہ داری کا بھی احساس ہوگا۔

عدالت نے مزید کہا تھا کہ عدالت کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کو عدالت کی اخلاقی سپورٹ چاہیے اور باہمی اعتماد قائم کریں۔

اختلافی نوٹ

پانچ رکنی لارجر بینچ کے تحریری فیصلے میں جسٹس  یحیٰی آفریدی نے اختلافی نوٹ بھی لکھا ہے۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’میں اس بات پر آمادہ نہیں کہ عمران خان کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت کے پاس مواد موجود نہیں ہے۔‘

جسٹس یحیٰی آفریدی  نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ عمران خان نے اپنے کارکنان کو ڈی چوک میں پہنچنے کا کہا اور عمران خان نے 25 مئی کے عدالتی احکامات کو نہیں مانا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان