پنجگور: نومولود بچے سمیت دو خواتین اور مرد بازیاب  

بازیاب ہونے والے افراد میں سہراب، شاہ بی بی، شہزادی اور لاپتہ دو ماہ کا بچہ شامل ہیں، اغوا کے وقت بچے کی عمر ایک ہفتہ تھی۔ ان افراد میں سے ایک مرد کو چند دن پہلے چھوڑ دیا گیا تھا۔

 اغوا کے وقت بچے کی عمر ایک ہفتہ تھی (تصویر: نصر اللہ بلوچ)

بلوچستان، پنجگور کےعلاقے گچک سے لاپتہ ہونے والے چھوٹے بچے سمیت دوخواتین اور دو مرد آج بازیاب ہوگئے ہیں۔

آج جمعرات کو بازیاب ہونے والے افراد میں سہراب، شاہ بی بی، شہزادی اور لاپتہ دو ماہ کا بچہ شامل ہیں، اغوا کے وقت بچے کی عمر ایک ہفتہ تھی۔ ان افراد میں سے ایک مرد کو چند دن پہلے چھوڑ دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے والےوکیل عمران بلوچ نے بتایا کہ مذکورہ افراد بازیاب ہوگئے ہیں جس کی تصدیق ان کی فیملی نے کردی ہے۔ 

عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس حوالے سے ہم نے پٹیشن دائر کی تھی جس میں چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ پر مشتمل بینچ نے متعلقہ اداروں  فرنٹیئر کور( ایف سی) اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) حکام سے جواب طلب کیا تھا۔ 

 24 مئی کو ہونےوالی سماعت کے دوران سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی اور آئی جی ایف سی  ساؤتھ کی طرف سے ان کے نمائندے پیش ہوئے۔ 

 عمران بلوچ نےبتایا کہ سماعت کے دوران ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے جواب جمع کرایا کہ پنجگور سے لاپتہ ہونے والے افراد ان کی حراست میں نہیں ہیں۔ جب کہ انہوں نے ہوشاب سے خاتون نورجہاں کی گرفتاری اور ان کے خود کش جیکٹ کی برآمدگی اور مقدمے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ 

 انہوں نے بتایا کہ آئی جی ایف سی ساؤتھ کے پروٹوکول آفیسر میجر جنید مشتاق  نے  ہمارے کیس کی کاپی لے کر کہا کہ وہ اگلی پیشی پر جواب جمع کرائیں گے۔ 

عمران نے بتایا کہ 25 مئی کو ہونے والے  سماعت کےدوران متعلقہ اداروں کےنمائندے پیش ہوئے اورآئی جی ایف سی کے نمائندے میجر جنید مشتاق نے جواب جمع کرایا کہ ان کے پاس پنجگور سے لاپتہ ہونے والے افرادنہیں ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ  چیف جسٹس نے نعیم اختر افغان، آئی جی ایف سی کےنمائندے سےکہا کہ وہ اگلی پیشی پر بھی حاضر ہوں جس کے بعد سماعت تین جون تک کے لیے ملتوی کی گئی تھی۔ 

اس سے قبل جب 23 مئی کو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج ہورہا تھا۔ جس پر گورنرہاؤس کے قریب شاہراہ کو بند کیا گیا تھا۔ 

اس دوران چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اخترافغان نے دھرنا دینےوالوں سے بات کی اور ان سےکہا کہ وہ شاہراہ  کو بند نہ کریں اور ان کے جو بھی مطالبات ہیں۔ ان کے لیے مجھے درخواست دیدیں میں کارروائی کروں گا۔ 

دھرنے میں شامل ماما قدیر بلوچ ، نصراللہ بلوچ اور خواتین نے چیف جسٹس کو بتایا کہ پنجگور سے نوزائیدہ بچے اور دو خواتین سمیت پانچ افراد کو لاپتہ کیا گیا جن کے حوالےسے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ 

چیف جسٹس نے ان کو بتایا کہ وہ قانون کے مطابق ان چیزوں کو دیکھ سکتےہیں جس کے لیےآپ ایک درخواست جمع کریں اور جو بھی مسئلہ  ہے بیان کردیں میں نوٹس لےکر اس پر متعلقہ اداروں سے جواب طلب کروں گا۔ 

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ چیف جسٹس کےدرخواست طلب کرنے پر ہم نے کامران مرتضی کے نام سے پٹیشن دائر کی۔ جس کی دو سماعتیں ہوچکی ہیں۔ 

نصراللہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنجگور واقعہ میں مدد نامی بندےکو پہلے لاپتہ کیا گیا تھا جس کو رہائی کے بعد ایف سی کیمپ میں حاضری لگانے کی ہدایت کی گئی۔ جس نے اس بار جب حاضری نہیں لگائی تو اس کی بیوی کمسن بچے اور ان دو مرد رشتہ داروں کو بھی لے گئے تھے جن میں خواتین بچے اور مرد سمیت چار افراد کو آج رہا کیا گیا۔ 

انہوں نے بتایا کہ مدد کو جب طلب کیا گیا تووہ ایف سی کیمپ نہیں گئے۔ جس پر ان کو خواتین اور بچے سمیت لے گئے تھے۔ جب ان کو اٹھایا گیا تو اس وقت بچے کی عمر چھ دن کی تھی۔ 

نصراللہ کا مزید کہنا تھا کہ مدد کو لاپتہ کرنے اور خواتین کو اٹھانے پر لواحقین نے وائس فار بلوچ مسنگ کے پاس شکایت درج کرائی تھی۔

نصراللہ  نے کہا کہ ہماری تنظیم نے خواتین کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بلوچستان یونیورسٹی سے گورنر ہاؤس تک ریلی نکال اور دھرنا دیا تھا۔  

انہوں نے بتایا کہ دو دن پہلے بھی ہماری صوبائی حکومت کی اعلیٰ حکام سے ملاقات ہوئی تھی جس میں ہم نے  جبر گمشدگیوں کے حوالےسے تحفظات اور بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔ 

صوبائی حکومت کےترجمان فرح عظیم شاہ نے 18 مئی کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتےہوئے کہاتھا کہ ’لاپتہ افراد کا مسئلہ انتہائی حساس ہے اس میں بہت سے وجوہات شامل ہیں۔‘

 دوسری جانب  ہوشاب سے گرفتار کیے جانے والےنورجہاں کی ضمانت ہوگئی تھی جب کہ کراچی سے لاپتہ ہونےوالی حبیبہ کو بھی بعد میں رہا کردیا گیا تھا۔ 

کراچی میں چینی باشندوں پر بلوچ خاتون شاری بلوچ کے خودکش حملے کے بعد بلوچسستان میں گرفتاریوں اور چھاپوں کا سلسلہ تیز کیا گیا جن میں خواتین کی گرفتاریاں بھی شامل ہیں۔ ان میں ضلع کیچ کے علاقے ہوشاب سے نورجہاں نامی خاتون بھی شامل ہیں جن پر خود کش حملے کی تیاری کا الزام لگایا گیاہے۔ نورجہاں کی گرفتاری کے خلاف علاقہ مکینوں اور لواحیقن نے ہوشاب میں گوادر جانے والی شاہراہ پر دھرنا دے کر احتجاج  بھی کیا تھا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان