توہین آمیز بیانات: بی جے پی رہنماؤں سمیت کئی افراد پر مقدمات

بی جے پی یووا مورچہ کے سابق ضلعی سکریٹری ہرشت سری واستو کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

بی جے پی کی خاتون ترجمان نوپور شرما نے ٹی وی پر جبکہ نوین کمار نے سوشل میڈیا ویب سائٹ پر اسلام مخالف بیان دیا تھا (تصویر: نوپور شرما/نوین کمار/ ٹوئٹر)

دہلی پولیس نے نفرت پھیلانے کے الزام میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں نوپور شرما اور نوین جندال سمیت متعدد افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

بھارت کے انگریزی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق یہ کیس دہلی پولیس کے سپیشل سیل کے انٹیلی جنس فیوژن اینڈ سٹریٹجک آپریشن یونٹ نے جمعرات کو درج کیا۔

اخبار کے مطابق ڈپٹی کمشنر آف پولیس پی ایس ملہوترا نے بھی اس پیشرفت کی تصدیق کی۔

پولیس نے کہا کہ مبینہ طور پر نفرت پھیلانے، مختلف مذہبی گروپوں کو اکسانے اور عوامی امن کو نقصان پہنچانے والے حالات پیدا کرنے کے لیے ان رہنماؤں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ مقدمہ نوپور شرما، نوین کمار جندال، شاداب چوہان، صبا نقوی، مولانا مفتی ندیم، عبدالرحمن، گلزار انصاری، انیل کمار مینا، پوجا شکون کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے دو ترجمانوں کی جانب سے پیغمبر اسلام سے متعلق ’توہین آمیز بیانات‘ دینے پر بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمان برہمی کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ سمیت اسلامی دنیا میں ’بائیکاٹ انڈیا‘ کی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

یہ سب چند روز قبل ایک ٹی وی مباحثے کے دوران بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما اور پھر دہلی میڈیا ونگ کے سربراہ نوین کمار جندال کے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر پیغمبر اسلام سے متعلق ’توہین آمیز الفاظ‘ استعمال کرنے کے بعد شروع ہوا۔

بیانات پر دنیا بھر کے مسلم ممالک سے مذمتی پیغام جاری ہوتے رہے اور بی جے پی نے دونوں پارٹی اراکین کی معطلی کا اعلان بھی کیا۔

نوپور شرما کے بیان پر بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں میں زبردست غم و غصہ ہے۔

دوسری جانب القاعدہ کی جانب سے اس توہین کا بدلہ لینے کے لیے بھارت میں  حملوں کی وارننگ کے بعد بھارت نے ملک بھر میں سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی مرکزی وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں القاعدہ کی برصغیر شاخ کی جانب سے جاری کردہ دھمکیوں کی صداقت کی جانچ کر رہی ہیں۔

نئی دہلی میں وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نے کہا: ’ہم نے ریاستی پولیس کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ عوامی اجتماعات یا احتجاج کی اجازت نہ دیں کیونکہ انہیں عسکریت پسند گروپس نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘

ادھر بھارت کے شہر کانپور میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک مقامی رہنما کو پیغمبر اسلام کے متعلق توہین آمیز سوشل میڈیا پوسٹ کرنے پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس(اے ڈی جی پی) برائے امن و امان پرشانت کمار نے بتایا کہ بی جے پی یووا مورچہ کے سابق ضلعی سکریٹری ہرشت سری واستو کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بی جے پی یوتھ ونگ کے رہنما پردفعہ 153 اے(کسی خاص گروہ یا طبقے کے مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ یا کسی بھی مذہبی شخصیت اور پیغمبروں کے بارے میں  ناپسندیدہ الفاظ ادا کرنے میں ملوث ہونا)، 295 اے(جان بوجھ کر کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو اس کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے مشتعل کرنا) اور بھارتی پینل کوڈ(آئی پی سی) کی دفعہ507 (گمنام مواصلات کے ذریعہ مجرمانہ دھمکی) اور67 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

گیانواپی مسجد کے معاملے پر ایک ٹی وی بحث کے دوران بی جے پی رہنما نوپورشرما کے توہین آمیز تبصروں کے بعد کانپور کے کچھ حصوں میں دو برادریوں کے افراد میں تصادم ہوا تھا۔

شرما کے ’توہین آمیز‘ تبصروں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دکانیں بند کرنے کی کوششوں کے دوران دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر اینٹیں برسائیں اور بم پھینکے۔

کانپور پولیس نے تشدد میں ملوث40 افراد کی  تصاویر والے پوسٹر جاری کیے۔ تشدد میں 40 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب تک اہم ملزم ظفر حیات سمیت 50 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور تشدد کے سلسلے میں 1500 سے زائد افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

بی جے پی نے نوپورشرما کو معطل اور اس مذہبی رہنما کے خلاف تبصرے پر دہلی یونٹ کے میڈیا سربراہ نوین جندال کو نکال دیا تھا۔

بی جے پی نے ایک بیان بھی جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے اور کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین کی سخت مذمت کرتی ہے۔

بی جے پی کے دونوں رہنماؤں کے مبینہ متنازع بیانات کی قطر، ایران، کویت، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا سمیت متعدد مسلم ممالک کی جانب سے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔

عالمی مذمت کے درمیان بھارت نے کہا ہے کہ ٹویٹس اور تبصرے کسی بھی طرح بھارتی حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ’ہمارے تہذیبی ورثے اور تنوع میں اتحاد کی مضبوط ثقافتی روایات کے مطابق حکومت تمام مذاہب کا سب سے زیادہ احترام کرتی ہے۔‘

اپوزیشن نے بھی بی جے پی حکومت کو نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ حکمران جماعت کی ’شرمناک عصبیت‘ نے بھارت کو نہ صرف تنہا کردیا ہے بلکہ اس کی عالمی حیثیت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا