’بھارتیہ جاسوس پارٹی‘

کانگریس نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ’جاسوسی ریکٹ‘ کا بادشاہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان پر غداری کا مقدمہ ہونا چاہیے۔

بھارت کی کانگریس پارٹی کے کارکن بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے 20 جولائی، 2021 کو نئی دہلی میں بی جے پی کی  حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے پیگاسس سپائی ویئر کے استعمال کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں حصہ لے رہے ہیں (اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں کلک کرنے سے سن بھی سکتے ہیں


بھارت کے ایوانوں میں اس وقت سے زبردست کھلبلی مچی ہوئی ہے جب سے اسرائیل کی جاسوسی کرنے والی کمپنی این ایس او کی جانب سے 50 ہزار سے زائد فون ہیک کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔

برطانیہ کے اخبار دا گارڈین نے لکھا ہے کہ این ایس او نے پیگاسس نامی سپائی وئیر سے دنیا کے مختلف بارسوخ شخصیات کے فون ہیک کرکے ان کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔

اس کا فوری اثر فون کمپنی ایپل سمیت کئی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر مرتب ہوا جن کے حصص کی قدر میں بے تحاشا گراوٹ دیکھی گئی۔

ایمازون نے تصدیق کی ہے کہ اس نے اسرائیل کے جاسوسی کرنے والے ادارے این ایس سو سے اپنے روابط کم کر دیے ہیں جبکہ بیشتر حکومتیں جنہوں نے اس کی جاسوسی کرنے کی کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں وہ اپنے عوام کے غیض و غضب کا سامنا کر رہی ہیں۔

این ایس او نے کہا ہے کہ وہ جاسوسی کرنے کی اپنی خدمات صرف حکومتی سطح پر فراہم کرتی ہے اور اس کے خریدار صرف بعض حکومتیں ہیں۔

ویب پوٹل دی وائر اور اخبار دا گارڈین سمیت عالمی میڈیا کے چند اداروں نے اس سلسلے میں ’فاربڈین سٹوریز یا ممنوع کہانیوں‘ کے نام سے کئی رپورٹیں شائع کرکے اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ بھارت میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی سمیت بعض وزرا، ججوں اور صحافیوں کے فون سننے یا معلومات حاصل کی کوشش کی گئی ہے جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے فون کو دو بار ہیک کرنے کا انکشاف بھی کیا گیا ہے۔

کانگریس نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اس ’جاسوسی ریکٹ‘ کا بادشاہ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ ان پر غداری کا مقدمہ ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے اسرائیلی کمپنی کو جاسوسی کرنے کی اجازت دے کر قومی تشخص کو نیلام کر دیا ہے۔

راہول گاندھی نے کہا ہے ’اگر یہ انکشافات درست ہیں تو مودی نے ملک کی جمہوری بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔اس کی فوری تحقیقات کے بعد مجرموں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔‘

کانگریس کے ایک اور بیان میں کہا گیا ہے کہ ’مودی سرکار نے قوم کے ساتھ غداری کی ہے اور اس وقت قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا جب ایک بیرونی کمپنی کو یہاں کے شہریوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی رسائی دے دی۔‘

کانگریس نے تو حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو ’بھارتیہ جاسوس پارٹی‘ تک قرار دے دیا۔

بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کی انتخابی مہم چلانے والے پرشانت کشور کا فون بھی ہیک کیا گیا ہے جبکہ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پانچ بار اپنا فون تبدیل کیا۔

مودی سرکار کے ایک وزیر آشونی ویشنوی نے جاسوسی سیکنڈل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی ان رپورٹوں کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ ’ان کا مقصد اصل میں ملک کی جمہوری ساخت کو بدنام کرنا ہے۔‘

ان کے اس بیان کے فورا بعد پتہ چلا کہ خود یہ وزیر بھی ان شخصیات میں شامل ہیں جن کے فون ہیک کرکے ان کے بارے میں ڈیٹا جمع کیا جا رہا تھا اور وہ کافی عرصے سے جاسوسی سپائی وئیر کے رڈار پر رکھے گئے تھے۔

کشمیر کے بعض صحافی، حریت رہنما اور سماجی کارکنوں کی ایک بڑی فہرست بھی جاری کر دی گئی ہے جن کے فون پیگاسس سپائی وئیر کے ریڈار پر رکھے گئے ہیں۔

اسرائیل اور بھارت کے بیچ اس طرح کے جاسوسی کے روابط پر کشمیریوں کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی ہے کیونکہ انہیں پہلے سے اس بات کا علم ہے کہ بھارت اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ کشمیر میں استعمال کرتا آیا ہے۔ تحریک حریت کو دبانے کے لیے مختلف بااثر لوگوں کے بارے میں معلومات جمع کرکے ان کا قافیہ تنگ کرنے کی جاسوسی پالیسی پرانی ہے۔

بھارت کی ایک ارب آبادی کو اب اس سب سے گزرنا پڑ رہا ہے جس سے کشمیری قوم گذشتہ 70 برسوں سے گزر رہی ہے جیسے کہ انہیں جیلوں میں بند کرنا، لاک ڈاؤن میں رکھنا، صحافیوں پر قدغن لگانا  یا عام شہریوں کی آواز کو دبانا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خود بھارت کے بیشتر لوگ آج وہی زبان استعمال کرنے لگے ہیں جو کشمیریوں نے کافی عرصہ پہلے استعمال کی تھی کہ وہ اس بھارت سے آزادی چاہتے ہیں جہاں خود ان کے عوام کے لیے اب زمین تنگ پڑ رہی ہے، جہاں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر اقلیتوں کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔

فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے کشمیریوں کے خدشات کو سنجیدہ نہیں لیا جبکہ ان ہی خدشات کی میڈیا کے چند اداروں نے اب تصدیق کی اور اسرائیل اور بھارتی سرکار کے درمیان اپنے ہی لوگوں کی جاسوسی کرنے کے بڑے سیکنڈل کو طشت از بام کیا ہے۔

اگرچہ اس سیکنڈل سے دیگر ممالک میں بااثر شخصیات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے اسرائیل کی جاسوسی کے منصوبوں پر سے پردہ اٹھا ہے اور ان کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن بھارت سمیت بعض مغربی حکومتیں اسرائیل کے دفاع میں کھڑی ہو گئی ہیں۔

خدشہ جتایا جا رہا ہے کہ ’پیگاسس پروجیکٹ‘ کا انجام بھی وہی ہوگا جو ویکی لیکس کا ہوا اور جس کے بانی بڑی جمہوریتوں کے اندر کئی برسوں سے سلاخوں کے پیچھے اپنی سانسیں گن رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ