جاسوس سافٹ ویئر ’پیگاسس‘: اسرائیلی وزارت دفاع پر شدید دباؤ

اسرائیلی سائبر کمپنی این ایس او کے جاسوس سافٹ ویئر ’پیگاسس‘ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے ’منظم‘ طریقے سے استعمال کیے جانے کے الزامات کے بعد اسرائیلی وزارت دفاع پر کمپنی کا ایکسپورٹ لائسنس منسوخ کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔

اسرائیلی وزارت دفاع کے ترجمان نے بتایا کہ این ایس او کی جانب سے فروخت کیا جانے والے جاسوسی سافٹ ویئر کا واحد مقصد جرائم سے لڑنا اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے (اے ایف پی)

نئی تحقیقات میں اسرائیلی سائبر کمپنی این ایس او کے جاسوس سافٹ ویئر ’پیگاسس‘ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے ’منظم‘  طریقے سے استعمال کیے جانے کے الزامات کے بعد اسرائیلی وزارت دفاع پر کمپنی کا ایکسپورٹ لائسنس منسوخ کرنے اور ملک کی سائبر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے اسے لاتعلق کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

یہ دباؤ ایسے وقت میں سامنے آیا جب این ایس او، اسرائیلی سکیورٹی ایکسپورٹ کمپنیوں اور عام طور پر اہم عہدوں پر فائز ہونے والے سینیئر سابق عسکری اور دفاعی اہلکاروں کے درمیان ’گردشی دروازے کی پالیسی‘ سے متعلق علیحدہ سے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل، فرانس میں قائم غیر منافع بخش تنظیم ’فاربیڈن سٹوریز‘ اور درجنوں ابلاغی اداروں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں، جسے ’پیگاسس پراجیکٹ‘ کا نام دیا گیا، دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے 50 ممالک کے ایک ہزار سے زائد ایسے افراد کی نشاندہی کی ہے جنہیں ممکنہ طور پر آمرانہ حکومتوں سمیت مختلف ممالک کی ایما پر پیگاسس کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔

مجموعی طور پر لیک ہونے والے ڈیٹا میں 50 ہزار فون نمبرز موجود ہیں اور تحقیقات کے مطابق ان نمبرز کو شاید جاسوسی کے سافٹ ویئر کے ذریعے نشانہ بنانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا جو کال ریکارڈ، میسج کاپی اور بھیجنے جبکہ کیمرے کو استعمال کرکے لوگوں کی فلم بندی کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔

این ایس او، جس نے اس معاملے پر اپنے طور پر تحقیقات شروع کردی ہیں، تمام الزمات کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ پیگاسس کو جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں پر نظر رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا اور ان کے کسٹمرز جو زیادہ تر حکومتیں ہیں، ان کی سخت جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔

تاہم انسانی حقوق کے علمبردار اور اسرائیلی اپوزیشن رہنما اتنے طاقت ور آلے کے ناجائز استعمال پر تشویش کا شکار ہیں اور وہ اسرائیل کی وزارت دفاع پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے یا این ایس او کا ایکسپورٹ لائسنس منسوخ کرے جو سافٹ ویئر کلائنٹس کو بیچنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

بعض حلقوں نے این ایس او، فوج اور اسرائیلی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان قریبی تعلق پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر بھی پیگاسس کے خلاف خدشات کی ایک لہر اٹھ چکی ہے۔

ایمازون کا کہنا ہے کہ اس نے اسرائیلی سرویلئنس کمپنی کے ساتھ اپنے بعض روابط ختم کرلیے ہیں۔ دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق فون کی پرائیوسی اور سکیورٹی کے حوالے سے خدشات پیدا ہونے کے بعد سٹاک مارکیٹ میں ایپل کے شیئرز کی قیمت بھی گر گئی۔

جب دی انڈپینڈنٹ نے پوچھا کہ کیا اسرائیلی وزارت دفاع نئی رپورٹ کی روشنی میں این ایس او کے ایکسپورٹ لائسنس کے خلاف تحقیقات شروع کرے گی تو ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔

وزارت دفاع نے این ایس او جیسی کمپنیوں سے متعدد سابق دفاعی و فوجی اہلکاروں کے وابستہ ہونے پر پائے جانے والے خدشات سے متعلق بھی سوال کو نظر انداز کر دیا۔

پیر کو وزارت دفاع کے ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ سائبر مصنوعات، جیسا کہ این ایس او کی جانب سے فروخت کیا جانے والا جاسوسی سافٹ ویئر، قانون کے مطابق استعمال کرنے کے لیے تھا اور اس کا واحد مقصد جرائم سے لڑنا اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسے کیسز جہاں برآمدہ شدہ شے کو ایکسپورٹ لائسنس یا اینڈ یوز سرٹیفکیٹس کے خلاف استعمال کیا جائے وہاں مناسب اقدامات کیے جاتے ہیں۔‘

دی انڈپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے این ایس او کے ایک ملازم نے 50 ہزار فون نمبرز کی رپورٹ کو جھوٹ اور فلمی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور کہا کہ پیگاسس کو کبھی بھی اتنے زیادہ فون نمبرز کے لیے لائسنس نہیں دیا گیا۔

تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کررہے ہیں کہ کیا واقعی اس سافٹ ویئر کو ’پیگاسس پروجیکٹ‘ میں خاص طور پر نشان زد 37 نمبر کو ہیک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا: ’ہم نے اسے (پیگاسس) خوب جانچ پڑتال کے بعد 45 سرکاری اداروں کو فروخت کیا، ہم کسی حکومت کو فروخت نہیں کر رہے، 90 ممالک (حکومتیں) ایسے ہیں جن کے ساتھ ہم نے بزنس کرنے سے انکار کیا۔

’ہمارے لیے پیسے سے زیادہ انسانی حقوق اہم ہیں، ہم نے گذشتہ چند برسوں میں پانچ کسٹمرز کو بند کیا اور اگر لوگوں نے اس پروڈکٹ کو زندگیاں بچانے کے لیے استعمال نہیں کیا تو مستقبل میں بھی ایسا کرتے رہیں گے۔‘

وہ پیگاسس اور مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی فیملی کے درمیان تعلق کو تو مسترد کرتے ہیں لیکن اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کرتے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ان کے کلائںٹس تھے یا نہیں۔

این ایس او 750 ملازمین پر مشتمل کمپنی ہے اور یہ سابق ڈیفنس اور ملٹری حکام کی تقرری کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کو مسترد کرتی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ ’زیادہ تر ملازمین نوجوان ہیں جن کی عمریں 21 سے 28 برس کے درمیان ہے، یہاں کوئی بہت زیادہ جنرلز نہیں۔‘

تاہم ذرائع نے تصدیق کی کہ پانچ موجودہ یا سابق اہلکار ایسے ہیں جو این ایس او میں یا ان کے لیے کام کرتے ہیں جن میں ایک اسرائیلی فوج کی چیف سینسر، بریگیڈیئر جنرل ایریلا بن ابراہیم بھی ہیں جو گلوبل کمیونیکیشنز ایگزیکٹو ہیں۔

اس کے علاوہ سابق وزیر دفاع کے بیورو چیف شیرون شالوم بھی بطور کنسلٹنٹ کام کرتے ہیں۔

اودید ہرشکوویز این ایس او کی نمائندگی کرنے والی کمپنی میں بیرونی تعلقات عامہ کے سربراہ ہیں اور وہ بھی اسرائیلی فوج کے سابق ترجمان رہ چکے ہیں۔

اسرائیلی سائبر اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل بوکی کارمیلی این ایس او کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ میں آپریشنل ایڈوائزر ہیں۔

خود کمپنی کے شریک بانی شالیو ہولیو اسرائیلی فوج کے سرچ اینڈ ریسکیو یونٹ میں میجر تھے اور کمپنی کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق وہ آرمی ریزرو میں خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اسرائیل کے میڈیا اینڈ کمیونیکیشنز کے سربراہ گِل نفی اس ساری صورتحال میں مفادات کے ٹکراؤ کے خدشات ظاہر کرچکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ اسرائیل کی پوری سکیورٹی ایکسپورٹ انڈسٹری میں پھیلا ہوا ہے اور ’یہ صنعت متعدد سینیئر ملٹری آفیسرز کے لیے گولڈن پیراشوٹ ہے، یہ گردشی دروازہ نہیں بلکہ گھومنے والا جھولا ہے۔‘

این ایس او کا لائسنس منسوخ کرانے کے لیے اسرائیلی عدالتوں میں دو درخواستیں دائر کرنے والے نامور انسانی حقوق کے وکیل ایطے میک نے بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خدشات کو درست قرار دیا۔

وہ اسرائیل کے ملٹری و سکیورٹی سیکٹرز اور نجی سیکٹر کے درمیان آمد و رفت کو محدود کرنے اور اس حوالے سے قوانین کو سخت بنانے کے لیے کام کرچکے ہیں۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’این ایس او پرائیوٹ کمپنی کے طور پر منظم ہونے کے باوجود اسرائیلی حکومت اور وزارت دفاع کا دست دراز بن گئی ہے۔

’وہ ایکسپورٹ لائسنس کو حکومتی پالیسی کے مطابق ترتیب دے رہے ہیں۔۔۔۔ انہیں اسرائیلی حکام کی 100 فیصد حمایت حاصل ہے۔ وہ سینیئر سکیورٹی اہلکاروں کو بھی نوکری دے رہے ہیں۔ یہ ایک گردشی دروازہ ہے۔‘

ایمنسٹی ٹیک کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈینا انگلیٹن کہتی ہیں کہ این ایس او کو فوری طور پر ان حکومتوں کو اپنے آلات کی فروخت روکنی چاہیے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں جبکہ وزارت دفاع کو فوری طور پر جاسوسی سافٹ ویئر تیار کرنے والی کمپنی کا سکیورٹی ایکسپورٹ لائسنس منسوخ کرنا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’تحقیقات میں سامنے آنے والے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ سرویلئنس انڈسٹری قابو سے باہر ہوگئی ہے۔‘ ان انکشافات نے اسرائیلی ارکان پارلیمنٹ کو بھی پریشان کردیا ہے۔

وزیر صحت اور میرتس پارٹی کے سربراہ نتزان ہوروویز، جو اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیت کی فیصلہ ساز سکیورٹی کابینہ کا بھی حصہ ہیں، رپورٹرز کو بتایا کہ وہ این ایس او کی ایکسپورٹس کے معاملے پر وزیر دفاع بینی گانتس سے جمعرات کو ملاقات کریں گے۔

رکن پارلیمنٹ موسی راز نے نشر ہونے والی ایک میٹنگ میں اپنی پارٹی سے درخواست کی کہ وہ حکومت سے این ایس او کی ایکسپورٹ روکنے کا مطالبہ کرے۔ انہوں نے اس معاملے کو غیر جمہوری ممالک کو ہتھیاروں کی برآمد قرار دیا، جو ممنوع ہے۔

میرتس پارٹی کے ایک اور رکن پارلیمنٹ یائیر گولان، جو اسرائیلی فوج کے ڈپٹی چیف رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ’این ایس او کے معاملے پر ہونے والی رپورٹنگ میلانی معلوم ہوتی ہے جس میں تجارتی ترغیب بھی شامل ہوسکتی ہے کیوں کہ صرف این ایس او واحد کمپنی نہیں جو ایسا کر رہی ہے۔‘

این ایس او کے ملازمین کا بھی یہی کہنا ہے کہ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور میڈیا انہیں نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں یہ پوری مہم کسی منصوبہ بندی کا حصہ لگی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ’یہاں بہت سی کمپنیاں ہیں جو ایسا کر رہی ہیں لیکن سارا ملبہ ہم پر ڈالا جا رہا ہے، سپریم کورٹ میں جتنی بھی پٹیشن تھیں وہ سب خارج ہوچکیں، وزارت دفاع انسانی حقوق اور کرپشن سے متعلق معاملات کی بہت باریک بینی سے جانچ کرتی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا