بجٹ 23-2022: حکومت کفایت شعاری کے کیا اقدامات کرے گی؟

مخلوط حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سے ایک مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ بھی ہے۔ ایسے میں کفایت شعاری کے کچھ اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر حکومت نے اپنے اخراجات بچانے کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جو بہت اہمیت کے حامل ہیں (فوٹو: بشکریہ شہباز شریف آفیشل فیس بک اکاؤنٹ)

حال ہی میں اقتدار میں آنے والی مخلوط حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سے ایک مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ بھی ہے۔

روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر ہو یا نمایاں طور پر کم ہوتے زر مبادلہ کے ذخائر، حکومت تمام درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے آج اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔

اگلے مالی سال کا بجٹ ساڑھے نو ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے، جس میں سے تقریباً چار ہزار ارب روپے سود کی ادائیگی میں خرچ ہوں گے۔

جہاں ایک جانب بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے بجٹ اہداف پر ڈیڈ لاک برقرار رہنے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں، وہیں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ساتھ توانائی کے معاہدوں پر از سر نو مذاکرات کرنے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیے: کیا پاکستان میں ایک ’اچھا‘ اور ’متوازن‘ بجٹ بن سکتا ہے؟

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر حکومت نے اپنے اخراجات بچانے کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جو بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

یہاں سوال یہ ہے کہ حکومت کفایت شعاری کے کیا اقدامات کرنے جارہی ہے؟

وفاقی کابینہ نے سرکاری افسران اور کابینہ کے ارکان کو ملنے والے پیٹرول کے کوٹے میں 40 فیصد کمی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ ایک ہفتے میں پیٹرول کی قیمت میں 60 روپے اضافہ کے ساتھ عوام کے شدید ردعمل کے بعد سامنے آیا ہے۔

سرکاری افسران اور وزرا کے ’غیر ضروری‘ غیر ملکی دوروں پر مکمل پابندی بھی کفایت شعاری مہم کا حصہ ہے۔

وفاقی وزیر برائےاطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کہہ چکی ہیں کہ ’متعلقہ کمیٹی کی منظوری کے بعد ہی صرف لازمی دوروں اور اہم دو طرفہ دوروں کی اجازت ہوگی۔‘ اسی طرح سرکاری افسران کو بیرون ملک علاج کروانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

مریم اورنگزیب کے مطابق حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر گاڑیاں خریدنے پر بھی پابندی ہوگی، جن میں سکول بسیں، ایمبولینس، سکول بسیں یا سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی گاڑیاں شامل نہیں ہیں۔

کفایت شعاری کے اقدامات میں کابینہ کی جانب سے سرکاری دفاتر و متعلقہ محکموں اور خود مختار اداروں میں دوپہر و رات کے کھانے اور ہائی ٹی پر پابندی لگانے کا فیصلہ بھی سامنے آیا ہے۔

سرکاری ملازمین کے یوٹیلیٹی بلز کے کوٹے میں 10 فیصد کمی کا کہا گیا ہے جبکہ دفتری سامان کی خریداری پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جب ترقی کرتے ہیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں پھنس جاتے ہیں: مفتاح اسمٰعیل

توانائی کی بچت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے ’ہفتے میں پانچ روز کام‘ کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سرکاری محکموں کی کارکردگی موثر کرنے کے لیے ہفتے کی تعطیل ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن سرکاری حکام کی جانب سے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسی طرح توانائی کی طلب کو کم کرنے کے لیے جمعے کے روز گھر سے کام کرنے کی پالیسی پر غور کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر برائے اطلاعات نےکہا ہے کہ حکومت ورچوئل اجلاس کو بھی ترجیح دے گی۔

توانائی کی بچت کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں صوبوں نے بازار رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دوسری جانب کابینہ نے متبادل راتوں میں سٹریٹ لائٹس بند کرنے کے منصوبوں کی بھی منظوری دی ہے۔

کفایت شعاری کے اقدامات میں وزیراعظم کی جانب سے اپنی سکیورٹی پر مامور گاڑیوں میں 50 کمی کا بھی فیصلہ سامنے آیا ہے۔

واضح رہے کہ اقتدار میں آنے کے فوری بعد موجودہ حکومت نے ملک میں درآمد ہونے والی مختلف اشیا کی درآمد پر پابندی لگا رکھی ہے، جن میں کھانے پینے کی اشیا اور بڑی گاڑیوں سمیت 41 لگژری اشیا شامل ہیں۔

کیا سابق حکومت نے کفایت شعاری کے اقدامات کیے؟

اقتدار میں آنے کے فوری بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ ’اگلے تین ماہ کے لیے وزیراعظم غیر ملکی دوروں پر نہیں جائیں گے اور دوروں پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ان کی نمائندگی کریں گے جبکہ یہ دورے کمرشل پروازوں پر ہوں گے۔‘

عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کفایت شعاری مہم کے پیش نظر ’وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہنے اور عملےمیں کمی’ کا بھی اعلان کیا تھا۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی کی جانب سے وزیراعظم ہاؤس میں موجود گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں اور جانوروں کو بھی نیلام کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ماہر معیشت حفیظ پاشا کے مطابق اس سال پاکستان کا بجٹ خسارہ ساڑھے پانچ ہزار ارب ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سال 2018 میں ملک کو ادائیگیوں کے لیے 20 ارب ڈالرز درکار تھے جبکہ اس سال پاکستان کو 37 ارب ڈالرز درکار ہیں، جو آئی ایم ایف کے بغیر ممکن نہیں ہیں جبکہ اس سے ترقی کی شرح میں بھی تین فیصد اضافہ ہو سکے گا۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں بجٹ کیسے بنتا ہے؟

دوسری جانب تجزیہ کار شہباز رانا حکومت کے کفایت شعاری کے فیصلوں کو محض ’علامتی‘ خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہر حکومت کے اوپر دباؤ ہوتا ہے کہ جب ملکی معیشت کے حالات خراب ہو رہے ہوتے ہیں تو کچھ ایسا کام کریں، جس سے عوام کو لگے کہ حکومت بھی قربانی دے رہی ہے۔‘

’اس طرح کے علامتی اقدامات ہمیشہ سے لیے جاتے رہے ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی حکومتیں بھی یہ کرتی رہی ہیں۔ جب عمران خان وزیراعظم بنے تھے تو انہوں نے وزیراعظم آفس کے بجٹ کو کافی کم کرکے اخراجات 40 فیصد کم کردیے تھے۔‘

بقول شہباز رانا: ’مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایسے اقدامات کی علامتی ویلیو ہوتی ہے، جس کا مقصد حکمرانوں کی جانب سے قربانی میں ساتھ دینا ہوتا ہے لیکن اس ممکنہ بچت کا سائز بہت کم ہوتا ہے اور اقدامات کا اعلان تو کردیا جاتا ہے لیکن بعد میں ان میں انحراف بہت زیادہ ہوتا ہے۔‘

’ماضی میں بھی جب گاڑیوں کی خریداری پر پابندی لگائی گئی تو حکومت اس کی خلاف ورزی کرتی رہی۔ جب آپ کسی وزارت میں جائیں تو آپ کو 2022 ماڈل کی گاڑیاں نظر آئیں گی۔‘

شہباز رانا کے مطابق: ’پیٹرول کے کوٹے میں 40 فیصد کٹوتی ممکنہ بچت ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک وزیر کو ملنے والے لامحدود پیٹرول سے 40 فیصد کٹوتی کیسے ممکن ہے؟ اور جب سیکرٹری کے پاس ایک گاڑی رکھنے کا حق ہے تو ان کے پاس ہمیشہ کئی گاڑیاں کیسے ہوتی ہیں؟‘

انہوں نے مزید کہا: ’حکمران اپنے اصل کرنے والے کام کرنے کو تیار نہیں ہیں، کئی ایسی ٹیکس مراعات ہیں جن سے اشرافیہ براہ راست اور بالواسطہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ایسا نہیں لگ رہا کہ بجٹ میں ان مراعات کو بڑے پیمانے پر واپس لیا جائے گا۔ جب سٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کرتا ہے تو یہ بچت نیوٹرلائز ہوتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت