معاشی بد انتظامی ٹھیک کرنا اولین ترجیح ہے: مفتاح اسماعیل

وفاقی وزیر نے کہا سبسڈی کے بعد عوام بجلی کا فی یونٹ 24 روپے میں خرید رہی ہے، جبکہ حکومت ایک یونٹ پر 30۔35 روپے خرچ کر رہی ہے۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی ترجیحات میں ملکی معیشت کو ان حالات میں سے نکالنا ہے جن میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت چھوڑ کر گئی ہے۔ (تصویر: ریڈیو پاکستان)

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں انتظامی طور پر بہتری لانا ہو گی اور ایسا کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو ’اٹیک‘ موڈ میں جاتے ہوئے سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔ 

اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ملک میں موجود معاشی بدانتظامی کے ساتھ معاملات آگے نہیں چل سکیں گے، اور اسے ہر صورت ٹھیک کرنا ہو گا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایسے اقدامات کی تجاویز دی گئی ہیں جن سے ملک معاشی طور پر بہتر انتظام کی طرف بڑھے گا۔ 

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران ملک کے امیر طبقات پر ٹیکس لگا کر کم آمدنی والوں کو مراعات دینے کی کوشش کی گئی ہے، جس کے باعث مہنگائی کا اثر کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ 

معاشی بدانتظامی کی وضاحت کرتے ہوئے وفاقی وزیر کہا کہنا تھا کہ سبسڈی کی وجہ سے عوام بجلی کا فی یونٹ 24 روپے میں خرید رہی ہے، جبکہ حکومت کے اس پر 30 سے 35 روپے فی یونٹ خرچ ہو رہا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ گیس کے نظام میں دو ارب ڈالر سے زیادہ کی گیس ضائع ہو جاتی ہے، جبکہ حکومت اس سے بہت کم رقم کی خاطر دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت کی ٹیکسز اور نان ٹیکسز آکی مد میں نو ہزار ارب روپے آمدن ہو گی، جو صوبوں اور دوسرے ہیڈز میں ادائیگیوں کے بعد 1100 ارب روپے رہ جائیں گے۔ 

'ان گیارہ سو ارب میں ہم نے وفاقی حكومت كا سارا خرچہ چلانا ہے، جس میں كشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا كے لیے رقوم بھی شامل ہیں۔' 

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی ترجیحات میں ملکی معیشت کو ان حالات میں سے نکالنا ہے جن میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت چھوڑ کر گئی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران ایسے اقدامات کی تجاویز بجٹ میں شامل کی گئی ہیں جن سے ملک کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔ 

انہوں نے کہا کہ ان اقدامات میں زراعت کو مراعات، دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا اور ایسی چیزوں پر ٹیکس جو زیادہ آمدنی والے لوگ استعمال کرتے ہیں وغیرہ شامل ہیں۔ 

’دوسری طرف ہم نے آئندہ سال كے دوران كم آمدنی والے پاكستانی شہریوں كو مراعات دینے كی كوشش كی ہے، اور ان اقدامات میں بے نظیر انكم سپورٹ پروگرام، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور اشیا خورد و نوش پر سبسڈیز وغیرہ شامل ہیں۔‘ 

'مالی سال 2022-23 کے لیے جمعے کو پیش کردہ بجٹ تجاویز مناسب ہیں، یا شاید وزیر خزانہ نے بری چیزیں تقریر میں نہیں بتائیں، تاہم پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی بڑھانے کا مطلب ہے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافہ۔' 

ایسا کہنا تھا اکثر ماہرین معاشیات کا، جو آئندہ مالی سال کے لیے پیش کردہ بجٹ تجاویز کو 'اچھا' قرار دیتے ہوئے، حکومتی اہداف کو کسی حد تک ناقابل حصول گردانتے ہیں۔ 

بیشتر ماہرین معاشیات سمجھتے ہیں کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بہت سارے حقائق قوم سے پوشیدہ رکھے ہیں، جو مزید بجٹ ڈاکومنٹس کے سامنے آنے پر ہی آشکار ہوں گے۔ 

 ماہر معاشیات سہیل احمد کے خیال میں مالی سال 2022-23 کے لیے پیش کیا گیا بجٹ اپنی فطرت کے لحاظ سے توسیعی نہیں ہے، بلکہ اسے معیشت کو مضبوط بنانے کی ایک کوشش کہا جا سکتا ہے۔ 

اچھا بجٹ  

سندھ كے سابق وزیر اور ماہر معاشیات میاں زاہد حسین كے خیال میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل كی آئندہ مالی سال سے متعلق پیش كی گئی بجٹ تجاویز اچھی ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’میں اسے اچھا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس بجٹ میں مڈل کلاس کے لیے ریلیف کے علاوہ صنعت اور زراعت کے لیے مراعات اور ٹیکس بیس بڑھانے کی تجاویز بھی موجود ہیں۔‘ 

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت جو وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں بیان کردہ سارے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان میں معاشی بڑوھتی ضرور نظر آئے گی۔ 

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز اینڈ کامرس (ایف پی سی سی آئی) کے سابق صدر ذکریا عثمان کے خیال میں پاکستان کی موجودہ صورت حال میں اس سے اچھا بجٹ نہیں پیش کیا جا سکتا تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی طور پر قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے عام آدمی کو بچانے کی خاطر مجوزہ بجٹ میں کافی تجاویز موجود ہیں، جن میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے، کم آمدنی پر انکم ٹیکس ختم کرنے، اور خصوصاً چھوٹے دکانداروں پر انکم ٹیکس لگا کر ٹیکس بیس بڑھانے کی تجاویز شامل ہیں۔ 

صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری محمد ادریس کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کو پیش کیے جانے سے پہلے جتنا مشکل سمجھا جا رہا تھا اتنا ثابت نہیں ہوا۔ 

صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری شکیل منیر نے بجٹ اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے وفاقی ادارالحکومت میں جدید انڈسٹریل سٹیٹ کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔ 

انہوں نے سگریٹ پر ٹیکس عائد کرنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو خوش آئند قرار دیا۔ 

بجٹ میں موجود ابہام 

جہاں کچھ ماہرین معاشیات آئندہ مالی سال کے بجٹ کو 'اچھا' قرار دیتے ہیں تو بعض دوسرے ایکسپرٹس اس میں موجود حکومتی اہداف کے حصول سے متعلق شکوک کا اظہار کر رہے ہیں۔ 

اس سلسلے میں پیٹرولیم مصنوعات پر ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 750 ارب روپے اکٹھا کرنے کا ہدف سر فہرست ہے۔ 

یاد رہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں پاکستان تحریک حکومت پیٹرولیم مصنوعات ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 610 ارب روپے کے ہدف کے بر عکس محض 135 ارب روپے اکٹھا کر سکی تھی۔ 

ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ پیٹرولیم لیوی بڑھانے سے مراد پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: 'اس کا مطلب یہی ہے کہ پٹرولیم لیوی 30 سے بڑھا کر 50 روپے فی لیٹر کی جا رہی ہے۔' 

معروف صنعت کار عارف حبیب کا کہنا تھا: 'لگتا ہے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کی امید رکھتے ہوئے ڈویلپمنٹ لیوی میں اضافے کی تجویز دی ہے۔' 

ماہر ٹیكس امور اشفاق تولہ كا خیال تھا كہ آئندہ مالی سال كے بجٹ میں دكانداروں پر ٹیكس لگانے كے علاوہ ٹیكس نیٹ كو بڑھانے كے اقدامات بہت كم ہیں، جس كے بغیر حكومتی محصولات میں اضافہ ممكن نہیں ہو گا۔ 

انہوں نے كہا كہ درآمدات میں كمی كی صورت میں بھی حكومت كے لیے 7009 ارب روپے كا ٹیكسوں كا ہدگ پورا كرنا مشكل ہو جائے گا۔ 

ماہر معاشیات خرم شہزاد نے کہا کہ بجٹ تقریر سے لگتا ہے کہ حکومت رواں مالی سال کے ختم ہونے سے قبل ہی سرکلر ڈیٹ کی مد میں بڑی ادائیگی کرنے جا رہی ہے۔ 

'تاہم یہ واضح نہیں کہ کتنی ادائیگی کی جا رہی ہے اور کیا یہ یکم جولائی سے قبل کی جائے گی یا نہیں؟' 

ماہر معاشیات خاقان ندیم كے خیال میں وزارت خزانہ كو بجٹ تقریر میں دیے گئے اعداد و شمار كو دوبارہ دیكھنے كی ضرورت ہے، كیونكہ ان میں كافی ابہام پایا جاتا ہے۔ 

وزیر مملكت برائے خزانہ ڈاكٹر عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ ایک پیکج کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں جہاں نئے ٹیکسز لگائے گئے اور سبسڈیز واپس لی گئی ہیں تو وہی کم آمدن والے خاندانوں کی امداد اور روزگار بڑھانے کی خاطر بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں مراعات کا مقصد ملک کی زرعی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ نجی شعبے کو کئی مراعات کی تجاویز بجٹ میں شامل کی گئی ہیں، جن میں ٹیکسز کی چھوٹ وغیرہ شامل ہیں، جن سے ملک میں صنعتیں ترقی کریں گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ 

وزیر مملکت نے مزید کہا کہ اسی طرح آئندہ مالی سال کے دوران حکومت سی پیک کے پراجیکٹس پر کام کو تیزی سے بڑھانے کی کوشش کرے گی، جو روزگار میں اضافے کا ایک دوسری وجہ بنے گا۔ 

عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فوری اضافے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، بلکہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کے نرخ گرنے کا انتظار کیا جائے گا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت