پشاور: 10 سالہ بچی کے قتل کے الزام میں خاتون گرفتار

واقعے کی ایف آئی آر ایس ایچ او حسن خان کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 34 اور 201 کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، تاہم مقتولہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی پولیس کو موصول نہیں ہوئی ہے۔

پشاور میں پانچ مارچ 2022 کو ایک پولیس اہلکار ڈیوٹی پر مامور (اے ایف پی)

صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں تھانہ پشتخرہ کے حدود میں گذشتہ روز 10 سالہ بچی کی سربریدہ بوری بند لاش ملنے کے بعد ایک خاتون ملزمہ کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ ان کے ساتھی ملزم کی تلاش ابھی جاری ہے۔

واقعے کی ایف آئی آر ایس ایچ او حسن خان کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 34 اور 201 کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے تاہم مقتولہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی پولیس کو موصول نہیں ہوئی ہے۔

تھانہ پشتخرہ پولیس نے ایف آئی آر کی تفصیلات انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ شہیدآباد کے علاقے میں پیش آیا ہے جہاں ایک ’مشکوک‘ شخص ایک خون آلود بوری میں بند کوئی شے خالی پلاٹ میں گند کے ڈھیر پر پھینک کر خوفزدہ حالت میں فرار ہوا، جس کی علاقہ مکین نے فوراً پولیس کو اطلاع دی۔

پولیس اہلکار عبداللطیف نے بتایا کہ پولیس نے اطلاع پاتے ہی جائے وقوعہ پر پہنچ کر بند بوری کو کھولا، تو انہیں تقریباً 10 سالہ ایک بچی کی لاش ملی۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس نے اپنے ایک مخبر خاص کی نشاندہی پر ایک گھر پر چھاپہ مارا، جہاں ایک خاتون جائے وقوعہ سے خون صاف کرنے اور شواہد ضائع کرنے میں مصروف تھیں۔ پولیس نے خاتون کو گرفتار کر کے اس کا بیان ریکارڈ کروا لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس اہلکار نے مزید بتایا کہ ملزمہ نے اقبال جرم کرتے ہوئے بتایا کہ مقتولہ کے ماموں، جس کے ساتھ ان کی بیٹی کی منگنی ہوئی تھی، کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں، اور بچی نے دونوں کو ایک ساتھ دیکھ لیا تھا۔ 

پولیس کے مطابق ملزمہ نے بتایا کہ اس ڈر سے کہ مقتولہ ان کا راز افشاں نہ کردے، دونوں نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا۔

ملزمہ نے بتایا کہ ملزم بچی کو اپنی ساس یعنی ملزمہ کے گھر لے آیا اور وہیں دونوں نے اسے جان سے مار دیا۔ 

تھانہ پشتخرہ حکام کے مطابق، ابھی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کیا جارہا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کہیں بچی کے ساتھ ریپ تو نہیں ہوا۔

پولیس حکام نے مزید بتایا کہ بچی کا تعلق غریب گھرانے سے ہے، جو کہ چھ ماہ قبل راولپنڈی سے عارضی طور پر پشاور میں اپنے ننھیال منتقل ہوئی تھی۔

بچی کے خاندان سے رابطہ کیا گیا تو چچا وسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی بھتیجی گذشتہ روز اس وقت گھر سے غائب ہوئی جب اس کے والدین بیمار بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیے صبح سات بجے گھر سے نکلے۔

وسیم نے بتایا کہ مقتولہ بچی سکول نہیں جاتی تھی، اور پانچ بہن بھائیوں میں سے سب سے بڑی تھی۔ 

انہوں نے بتایا: ’15 دن پہلے جب میرا بھائی بیروزگاری اور غربت سے تنگ آگیا تو اس نے میرے ساتھ پنڈی میں نوکری ڈھونڈ لی اور بیوی بچوں کو سسرال کے ہاں چھوڑ آیا، تین دن قبل بیٹے کی علالت کا سن کر پشاور آیا تھا کہ یہ واقعہ ہوا۔‘

انہوں نے کہا کہ بچی کے والدین غم سے نڈھال ہیں، اور علاقے کے تمام لوگ بھی اس واقعے پر رنجیدہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم چاہتے ہیں کہ ان دونوں ملزمان کو ایسی سزا ملے کہ دنیا کے لیے عبرت کا نشان بن جائیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان