کشمیر: ’فیس بک پر توہین مذہب‘ کرنے والے شخص کو سزائے موت

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے دھیرکوٹ کے رہائشی 40 سالہ ملزم کو مقامی عدالت نے الزام ثابت ہونے پر موت کی سزا کے علاوہ 10 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی۔

ملزم کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ مئی 2020 میں تھانہ پولیس دھیرکوٹ میں حافظ ظہور نامی شخص کی مدعیت میں درج ہوا تھا (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ایک مقامی عدالت نے فیس بک پر توہین مذہب کا الزام ثابت ہونے پر ہفتے کو ایک 40 سالہ شخص کو سزائے موت سنا دی۔

محمد شفیق خان نے دو سال قبل مبینہ طور پر فیس بک پر اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج دھیرکوٹ کی عدالت نے ملزم کو تعزیرات پاکستان (آزاد پینل کوڈ) کی دفعہ 295 سی کے تحت موت کی سزا کے علاوہ 10 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی۔

ملزم کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ مئی 2020 میں تھانہ پولیس دھیرکوٹ میں حافظ ظہور نامی شخص کی مدعیت میں درج ہوا، جو مقامی مسجد میں خطیب اور سرکاری سکول میں معلم ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے رابطہ کرنے پر حافظ ظہور نے اس مقدمے اور ملزم کے ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے کسی قسم کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

40 سالہ ملزم ضلع باغ کی تحصیل دھیرکوٹ کے علاقے ہنس چوکی کے رہائشی ہیں، جن کے تین بچے ہیں۔ ملزم نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی اور قطر و سعودی عرب میں محنت مزدوری کرنے کے بعد کچھ سالوں سے دھیرکوٹ میں ہی ذاتی کاروبار سے منسلک رہے۔

مزید پڑھیے: پشاور ضلعی عدالت: توہین مذہب کا ملزم جج کے سامنے قتل 

ملزم کے خلاف درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق انہوں نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں نہ صرف پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی بلکہ اپنے نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔

عدالت سے جاری تفصیلی فیصلے کے مطابق ملزم کے وکیل نے ملزم کی ذہنی صحت کے حوالے سے دستاویزات جمع کروائیں اور ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کے بیانات بھی قلمبند کروائے، تاہم عدالت نے ان شواہد کو ناکافی قرار دیا۔

اس مقدمے کی تفتیش کرنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسر مرزا زاہد حسین کے مطابق پولیس نے اس معاملے کی ہر پہلو سے چھان بین کی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مرزا زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ہر طرح سے اطمینان کے بعد یہ مقدمہ درج کیا کہ کہیں اس میں ذاتی دشمنی کا عنصر شامل نہ ہو۔‘

ان کے بقول: ’ملزم کی صحت سے متعلق بھی ہر طرح سے اطمینان کے بعد مقدمہ درج ہوا۔‘

مزید پڑھیے: لاہور: توہین مذہب پر مبنی پیغامات بھیجنے پر موت کی سزا

2019 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت نے توہین مذہب کے مقدمات کے اندراج کے طریقہ کار میں تبدیلی کرتے ہوئے ایسا کوئی بھی مقدمہ درج کرنے سے قبل اس ریجن کے اعلیٰ ترین پولیس افسر یعنی ڈی آئی جی اور متعلقہ ضلع کے مفتی امور دینیہ پر مشتمل کمیٹی کی سفارش کو لازمی قرار دیا تھا۔

مرزا زاہد حسین کے بقول اس مقدمے کے اندراج سے قبل بھی ضلع باغ کے مفتی اور ڈی آئی جی پونچھ ڈویژن راشد نعیم پر مشتمل کمیٹی نے اس معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کے بعد مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی تھی۔  

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے جس میں توہین مذہب کے ملزم کو موت کی سزا ملی ہے۔ اس سے قبل ایسے کسی مقدمے میں موت کی سزا نہیں دی گئی۔

تاہم پیغمبر اسلام اور مذہبی شخصیات کی ’توہین‘ کے الزم میں ایک درجن سے زائد مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان