’ہیروں کا شہر‘ جہاں کے کاریگر اب بے کار بیٹھے ہیں

دنیا کے تقریباً 90 فیصد ہیروں کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر سورت میں کاٹ کر تراشا اور پالش کیا جاتا ہے، لیکن یوکرین میں روسی جنگ کے بعد اب یہاں کے کاریگر فارغ بیٹھے ہیں۔

یوکرین میں جاری روسی جنگ کا اثر جہاں دنیا بھر پر پڑا ہے، وہیں بھارت میں ہیروں کی صنعت بھی اس کی زد میں آئی ہے، جہاں تقریباً 20 لاکھ بھارتی شہری اس انڈسٹری سے منسلک ہیں۔

یوگیش زنزمیرا بھارتی ریاست گجرات کے شہر سورت میں واقع ایک ہیرا سازی کی فیکٹری میں کام کرتے ہیں، جہاں 30 سے 40 لوگوں کے لیے محض ایک بیت الخلا ہے، جہاں سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھکے نہ صرف ناقابل برداشت ہیں بلکہ ماحول ایسا ہے جو لوگوں کو بینائی کی خرابی، پھیپھڑوں اور دیگر بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے۔

لیکن زنزمیرا اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لیے اس وقت فوری پریشانی یوکرین میں جاری روسی جنگ ہے، جس کی وجہ سے روس پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جو بھارت کو خام قیمتی پتھروں کا سب سے بڑا سپلائر اور دیرینہ سٹریٹجک اتحادی ہے۔

فیکٹری کی ورکشاپ میں موجود 44 سالہ زنزمیرا  نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’یہاں ہیرے نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے کام نہیں ہے۔‘

یہ ورکشاپ سورت شہر میں واقع ہے جہاں زنزمیرا نے سکول چھوڑنے کے بعد 13 برس کی عمر میں کام کا آغاز کیا۔

ان کا کہنا تھا: ’جنگ ختم ہونی چاہیے۔ ہر کسی کی روزی کا انحصار جنگ کے خاتمے پر ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ انہیں 20 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی، جو اب 20 سے 30 فیصد کم ہوگئی ہے۔

لیکن وہ ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں، جن کی ملازمت اب تک برقرار ہے، ورنہ مقامی ٹریڈ یونین کے مطابق سورت میں ہیروں کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے 30 سے 50 ہزار افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہوچکے ہیں۔

مشکل وقت

دریائے تاپتی کے کنارے ایک بندرگاہی شہر کے طور پر بسائے گئے سورت نے 1960 اور 70 کی دہائی میں بھارت کے ’ہیروں کے شہر‘ کے طور پر شہرت حاصل کی۔

اب دنیا کے تقریباً 90 فیصد ہیروں کو اس صنعتی شہر میں کاٹ کر تراشا اور پالش کیا جاتا ہے اور سورت کے مہیدھر پورہ بازار کے تاجر کھلے عام لاکھوں ڈالر مالیت کے ہیروں کی روزانہ تجارت کرتے ہیں۔

سورت میں واقع ’چراغ جیمز‘ کمپنی کے سی ای او چراغ پٹیل کہتے ہیں: ’اگر کوئی ہیرا سورت سے نہیں گزرتا، تو وہ ہیرا نہیں ہے۔‘

الروسا جیسی روسی کان کنی کی کمپنیاں روایتی طور پر بھارت کے خام ہیروں کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ فراہم کرتی ہیں لیکن مغربی پابندیوں کی وجہ سے ان کی سپلائی رک گئی ہے۔

’چراغ جیمز‘ کے لیے روس اس سے بھی زیادہ اہم تھا، جو اسے 900 خام پتھروں میں سے نصف فراہم کرتا ہے، جسے یہ کمپنی جدید ترین سکیننگ اور لیزر کٹنگ مشینوں سے تراش خراش کے قیمتی ہیروں میں تبدیل کردیتی ہے جو لاکھوں ڈالر میں فروخت ہوتے ہیں۔

لیکن رواں برس مارچ میں مغربی پابندیوں کی وجہ سے روس کوسوئفٹ  بین الاقوامی ادائیگیوں کے نیٹ ورک سے منقطع کرنے کے بعد حالیہ مہینوں میں سپلائی سکڑ کر اصل تعداد کا محض دسواں حصہ رہ گئی ہے۔

32  سالہ چراغ پٹیل نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمیں روس سے سامان نہیں مل رہا کیونکہ ادائیگیوں کا نظام جنگ کی وجہ سے رک گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ جنوبی افریقہ اور گھانا سے سپلائی کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہیروں کی ڈیمانڈ

چراغ پٹیل کا کہنا ہے کہ امریکہ میں جون سے ستمبر تک شادیوں کا سیزن ہیروں کے برآمد کنندگان کے لیے ایک اہم دور ہے۔

جیم اینڈ جیولری ایکسپورٹ پروموشن کونسل (جی جے ای پی سی) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ تک بھارت کی 24 ارب ڈالر کی تراشیدہ اور پالش شدہ ہیروں کی برآمدات میں سے 40 فیصد سے زیادہ امریکہ گیا۔

لیکن تاجروں کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں سپلائی میں کمی کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ سے ڈیمانڈ میں بھی کمی آئی ہے کیونکہ سگنیٹ، ٹفنی اینڈ کمپنی، چوپارڈ اور پنڈورا جیسی کمپنیاں روس سے حاصل کیے گئے ہیرے خریدنے سے انکاری ہیں۔

اس سب کا خمیازہ دیپک پرجاپتی جیسے کارکنوں کو بھگتنا پڑا ہے، جنہیں مئی میں ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔

مزید پڑھیے: ’نیلے ہیرے‘ پر سعودی عرب اور تھائی لینڈ میں کشیدگی ختم

37 سالہ دیپک نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں نے کمپنی کو یہ پوچھنے کے لیے فون کیا کہ میں کب دوبارہ کام شروع کر سکتا ہوں، لیکن انہوں نے کہا کہ ان کے پاس میرے لیے کوئی کام نہیں ہے اور میں گھر پر ہی رہوں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’سورت میں 60 فیصد نوکریاں ہیروں کی صنعت سے منسلک ہیں، جو یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ میں ہیروں کے علاوہ کوئی کام نہیں جانتا۔‘

پرجاپتی کی نوکری ایک ایسے وقت میں گئی ہے، جب وہ کرونا وبا کے دوران لگائے گئے لاک ڈاؤن کے معاشی اثرات سے ہی باہر نہیں نکلے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’ہمیں چھ سے آٹھ مہینوں سے کوئی تنخواہ نہیں ملی تھی۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے ہر طرف سے پیسہ لینا پڑا اور اب بھی ہم وہ قرض واپس کر رہے ہیں۔‘

گجرات ڈائمنڈ ورکرز یونین نے ریاست کے وزیراعلیٰ سے ان مزدوروں کے لیے 10 ارب روپے کے امدادی پیکج کا مطالبہ کیا ہے جو اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں۔

یونین کے نائب صدر بھاویش ٹانک نے کہا: ’ہم نے ان سے کہا کہ اگر آنے والے دنوں میں حالات بہتر نہ ہوئے تو ہمارے کارکن خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’سورت نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ سورت نے پوری دنیا کو ہیرے گِھس گِھس کر دیئے ہیں لیکن اب ہمارے ہیروں کے کارکن گِھس رہے ہیں۔‘

بھاویش نے مزید کہا: ’ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ جنگ ختم ہو جائے، اگر جنگ ختم نہ ہوئی تو ہم نہیں جانتے کہ حالات کتنے برے ہوں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا