پاکستان میں گذشتہ چند سالوں سے کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ سےمتعلق کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔
پہلے مرحلے میں دہشت گردی یا دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں کئی تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر پابندیاں عائدکی گئیں اس کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے لیے مالی امداد سے متعلق سخت اقدامات کیے گئے۔
عدالتوں نے کئی کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے چندہ جمع کرنے پر سزائیں بھی سنائی ہیں۔ کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے رہنما ساجد مجید چوہدری( ساجدمیر) کو بھی گذشتہ ماہ سزا سنائی گئی ہے۔
دفاعی تجزیہ کار جنرل اعجاز اعوان کے مطابقپاکستان کا نام فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کی امید اسی لیے پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کو مالی معاونت، منی لانڈرنگ اور کالعدم تنظیموں کے خلاف موثرکارروائی کی ہے۔
ساجد میر کون ہیں؟
لاہور کے علاقہ فیصل ٹاؤن میں پیدا ہونے والے 43 سالہ ساجد میر کا اصل نام ساجد مجید چوہدری ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق 2008 میں بھارتی شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں کے ماسٹر مائنڈ ساجد میر تھے اور انہوں نے مبینہ طور پر ممبئی میں محاصرے کے دوران حملہ آوروں کو لاہور سے ہدایات دی تھیں۔
یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ ساجد میر نے ممبئی میں ریکی کرنے اور اہداف کی تفصیلات اکٹھی کرنے میں دو سال گزارے۔ انہوں نے مبینہ طور پر یہ حملہ امریکی دہشت گرد کولیمن ہیڈلی کی مدد سے کیا جو بین الاقوامی جرائم میں ملوث ہونے کے جرم میں امریکہ میں 35 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق کالعدم تنظیم لشکر طیبہ اور اس کے سربراہ حافظ سعید کے ساتھ ساجد میر کی وابستگی 1994 سے شروع ہوئی، جب وہ محض 16 سال کے تھے جس کے بعد وہ شدت پسند تنظیموں سے بھی منسلک ہوئے۔
ان پر الزام ہے کہ وہ کالعدم لشکر طیبہ کے بین الاقوامی آپریشنز کے نائب سربراہ رہے اور انہوں نے اس یونٹ کی قیادت بھی کی تھی۔ ریکارڈ کے مطابق ساجد میر کو ذکی الرحمٰن لکھوی تک براہ راست رسائی حاصل تھی جن پردہشت گردی کی کارروائیوں کا الزام بھی تھا۔
ان کا نام امریکی ایف بی آئی کی ’سب سے مطلوب دہشت گردوں کی فہرست‘ میں شامل ہے اور ان کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ساجد میر مبینہ طور پر ممبئی حملوں میں ملوث ہیں۔ ایف بی آئی کے مطابق ڈنمارک کے ایک اخبار کے خلاف حملے میں بھی ممکنہ طور پر ان کا ہاتھ ہے۔
ساجد میر پر امریکی شہر شکاگو کی ایک عدالت میں 2011 میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی جس میں ان پر دہشت گردوں کی مالی معاونت، امریکہ سے باہر ایک امریکی شہری کی ہلاکت اور عوامی مقامات پر بم حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے تھے۔
ساجد میر کو سزا:
کالعدم لشکر طیبہ کے اہم رہنما ساجد میر کو پاکستان کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے پنجاب کے شہر گجرانوالہ میں دشت گردو کی مالی معاونت کے لیے چندہ جمع کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
ان کی گرفتاری کو بہت پوشیدہ رکھا گیا تھا۔ اس مقدمہ میں انہیں گذشتہ ماہ 16مئی کو گجرانوالہ کی ہی ایک انسداد دہشت گردی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی شق 11-F(2)کے مطابق چھ ماہ قید اور20ہزار جرمانہ شق 11-H(3) اور 11-Nمیں آٹھ سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ جبکہ 11-J(2) اور 11-N کے مطابقسات سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ کی سزائیں سنائیں۔
عدالتی حکم کے مطابق سنائی گئی سزائیں ایک ہی وقت میں مجرم کو بھگتنا ہوں گی جو مجموعی طور پر 15سال چھ ماہ قید اور چار لاکھ 20ہزار جرمانہ بنتا ہے۔
پولیس کے مطابق ساجد میر ان دنوں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں جبکہ ان کے خلاف فیصلہ کو پوشیدہ رکھنےکی وجہ سے کسی بھی پاکستانی میڈیا نے رپورٹ نہیں کیا مگر جب ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سےنکالنے سے متعلق اجلاس ہوا وہاں اس کے تذکرہ پر بھارتی میڈیا نے بھی چند دن پہلے یہ خبریں چلائیں۔
کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو سزائیں اورپاکستان کے اقدامات:
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب عارف کمال نون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں گذشتہ تین سالوں کے دوران دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں کئی کالعدم تنظیموں کے مرکزی رہنماؤں کو سزائیں دلوانے میں پراسیکویٹر نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے۔
حافظ سعید، عبدالرحمن مکی اور اب ساجد میر کو سزائیں دلوانے میں پراسیکیوٹر نے اپنا قانونی کردار ادا کیا ہے اس کے علاوہ جو بھی مقدمات سی ٹٰی ڈی کی جانب سے درج ہوئے انہیں عدالتوں میں ثابت کیا گیا ہے اسی وجہ سے اب تک16سے 17 ملزموں کو سزائیں ہوچکی ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان نے گذشتہ تین چار سالوں میں کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت جیسے جرائم پر قابو پانے کے لیے موثر حکمت عملی سے کام لیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کرنےکے بعد جو شرائط رکھی گئیں ان میں سے بنیادی طور پر تین تھیں جن پر کافی حد تک عمل کردیاگیا ہے اور باقی پرعمل کیا جارہا ہے۔
اعجاز اعوان کے بقول پہلی شرط تھی کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والی تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر چندہ کرنا سے روکا جائے۔
دوسری شرط تھی کہ منی لانڈرنگ بند کر کے بینکنگ کے نظام کو ریگیولیٹ کیا جائے۔
تیسری شرط کے مطابق دہشت گروں کو تحفظ دینے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
ان کے مطابق پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے چندہ جمع کرنے والی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے دفاتر بند کرائے اس کے بعد مالی معاونت کے لیے چندہ جمع کیے جانے پر ان کے مرکزی رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔
منی لانڈرنگ روکنے کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ بنایا تاکہ غیر ملکی ڈالرز یہاں نام کے ساتھ ڈالرز کی صورت میں آئیں بینکنگ کے نظام کو بھی بہتر کیا بے نامی اور مشکوک اکاؤنٹس بند کر دیے گئے۔
حوالہ ہنڈی وغیری کا نظام بند کیاگیا اور پیسہ کی دورفت کو دستاویزی شکل دی گئی جہاں مشکوک ٹرانزیکشن پر بھی ایکشن ہوا۔
اعجاز اعوان کے بقول منی لانڈرنگ سے متعلق بھی کارروائیاں کی گئیں اب منی لانڈرنگ ممکن نہیں البتہ منی لانڈرنگ میں ملوث حکمرانوں کے خلاف کیس ابھی تک عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ یہی وجہ ہے فیٹف کے آخری اجلاس میں پاکستان کی جانب سے شرائط پوری کرنے کایقین کیا گیا اور امید ہے اکتوبر میں فیٹف ٹیم کی پاکستان معائنہ کے لیے آمد کے فوری بعد نام گرے لسٹ سے نکل جائےگا کیونکہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی بیشتر شرائط پوری کر دی ہیں۔