یورپی عدالت کی دو برطانویوں کو روس میں سزائے موت سے بچانے کی کوشش

انسانی حقوق کی یورپی عدالت(ای سی ایچ آر) نے یوکرین کے لیے لڑائی کے دوران پکڑے گئے دو برطانویوں کو سزائے موت سے بچانے کے لیے جمعرات کو عبوری اقدامات جاری کیے ہیں۔

28 سالہ ایڈن اسلین اور 48 سالہ شان پنر کو رواں ماہ کے شروع میں خود ساختہ دونیتسک عوامی جمہوریہ (ڈی پی آر) کی ایک عدالت میں اقتدار پر قبضے کے لیے پرتشدد کارروائی کا مجرم قرار دیا گیا تھا (فائل تصویر: اے پی)

انسانی حقوق کی یورپی عدالت(ای سی ایچ آر) نے یوکرین کے لیے لڑائی کے دوران پکڑے گئے دو برطانویوں کو سزائے موت سے بچانے کے لیے جمعرات کو عبوری اقدامات جاری کیے ہیں۔

احکامات میں روس کو ہدایات دی گئی ہیں کہ ان افراد کو سزائےموت نہ دی جائے۔

عدالت نے ایک بیان میں کہا: ’عدالت نے رولز آف کورٹ کے رول 39 (عبوری اقدامات) کے تحت خاص طور پر روسی فیڈریشن کو مخاطب کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ درخواست دہندگان پر عائد سزائے موت پر عمل نہ کیا جائے۔‘
28 سالہ ایڈن اسلین اور 48 سالہ شان پنر کو رواں ماہ کے شروع میں خود ساختہ دونیتسک عوامی جمہوریہ (ڈی پی آر) کی ایک عدالت میں اقتدار پر قبضے کے لیے پرتشدد کارروائی کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
ایک تیسرے شخص مراکشی شہری ساودون برہیم کو بھی ان کے ساتھ سزا سنائی گئی۔ ای سی ایچ آر نے 16 جون کو  برہم کے معاملے میں بھی مداخلت کی تاکہ سزائے موت پر عمل نہ ہو سکے۔

ای سی ایچ آر نے درخواست کی کہ روسی حکومت دو ہفتوں میں معلومات فراہم کرے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان دونوں برطانویوں کے حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔
یوکرینی فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے بعد ان افراد پر ’کرائے کے فوجی‘ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، غیر تسلیم شدہ علاقے میں اس الزام کی سزا موت ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے کہا کہ ان کو دی جانے والی سزائیں یوکرین کے لیے لڑنے وال دیگر فوجیوں کے لیے ایک واضح مثال قائم کریں گی۔
اہل خانہ اور وکلا کے مطابق ایڈن اسلین نوٹنگھم شائر اور شان پنر کا اصل تعلق وٹفورڈ سے تھا، دونوں یوکرین کے رہائشی اور روسی حملے سے قبل کئی برسوں سے ملک کی مسلح افواج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
دوستوں نے بتایا کہ21 سالہ مراکشی شہری ساودون برہم کا تعلق اصل میں کاسابلانکا سے تھا، کیئف کی ایک یونیورسٹی میں ایرو سپیس ٹیکنالوجی کا طالب علم تھا جس نے گزشتہ موسم گرما میں یوکرانی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس نے انہیں بتایا تھا کہ وہ’ہیرو کے طور پر مرنا چاہتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 برطانیہ نے اس کارروائی کو’باعث شرم‘ قرار دیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس نے منگل کو کہا کہ ان افراد کی رہائی کا بہترین راستہ ’یوکرینیوں کے ذریعے‘ ہے، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ’جو کچھ بھی کرنا پڑا‘ وہ کریں گی۔
برطانوی افراد کے اہل خانہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ یوکرین کی مسلح افواج سے معاہدہ کرنے والے دونوں کرائے کے فوجی تھے۔

برطانیہ نے اب تک عوامی سطح پر اس معاملے کو ڈی پی آر کے حکام کے سامنے نہیں اٹھایا جس کی آزادی کو صرف روس تسلیم کرتا ہے، اس کے بجائے برطانیہ نے کہا کہ اسے امید ہے کہ کیئف ان افراد کو رہا کروا لے گا۔
ایڈن اسلین کے اہل خانہ نے اس سے قبل بیان میں کہا تھا:’ ہم ایڈن اسلین کے خاندان کی حیثیت سے اس وقت میڈیا سے رازداری چاہتے ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا:’یہ ہمارے خاندان کے لیے بہت جذباتی وقت ہے اور ہم ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے ہماری حمایت کی ہے۔‘
انہوں نے کہا:’ہم اس وقت یوکرینی حکومت اور دفتر خارجہ کے ساتھ مل کر ایڈن اسلین کو لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہمیں امید ہے کہ وہ بہت جلد رہا ہو جائے گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا