منشیات کے عادی افراد کے لیے خیبر پختونخوا کا بحالی پروگرام

پشاور کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق ’منشیات سے پاک پشاور‘ پروگرام کے تحت ایک سروے کیا گیا، جس کے مطابق، صرف پشاور میں دو ہزار سے زیادہ افراد نشے کے عادی ہیں، جن میں مرد، خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔

نشے میں مبتلا ایک شخص جسے بحالی سینٹر لے جایا گیا (انڈپینڈنٹ اردو)

خیبرپختونخوا حکومت نے حال ہی میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا ایسا پروگرام شروع کیا ہے، جس میں نشہ کرنے والے افراد کو تب تک نہیں چھوڑا جائے گا، جب تک وہ مکمل طور پر صحت یاب ہوکر کوئی روزگار شروع نہیں کر دیتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے ایسے افراد کے اہل خانہ سمیت، علاج معالجہ کرنے والے ہسپتالوں اور اداروں، محکمہ سماجی بہبود، اینٹی نارکاٹکس، ایکسائز، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو شامل کرکے مختلف ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔

پشاور کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’منشیات سے پاک پشاور‘ پروگرام کے تحت انہوں نے ایک سروے کیا ہے، جس کے مطابق، صرف پشاور میں دو ہزار سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں، جن میں مرد، خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔

ڈپٹی کمشنر شفیع اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان دو ہزار افراد میں صوبہ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سمیت دوسرے صوبوں کے افراد بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’کل دو ہزار افراد میں سے ابھی تک چھ سو کے قریب افراد کو پشاور کے بحالی مراکز میں لایا جا چکا ہے، جن کو جگہ کم پڑ جانے پر چارسدہ، مردان، صوابی، کوہاٹ و دیگر مراکز بھیجا جائے گا۔‘

انہوں نے کہا: ’یہ منصوبہ وزیراعلیٰ محمود خان کا وژن ہے جنہوں نے مزید کارروائی کے لیے ضلعی انتظامیہ کو ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہے کہ پبلک اور پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے منشیات کے حوالے سے ایک جامع سٹریٹیجی پر عملدآرمد ہو رہا ہے۔‘

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ اس منصوبے کے دو حصے ہیں، ایک بحالی اور دوسرا منشیات بیچنے والوں کا راستہ روکنا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’منشیات کی سپلائی لائن کو ختم کرنے کے خلاف اینٹی نارکوٹکس، پولیس، ایکسائز، اور ضلعی انتظامیہ مل کر کام کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شفیع اللہ خان نے بتایا کہ ہیروئن، آئس اور دیگر منشیات کا نشہ کرنے والوں کو پکڑ کر بحالی سینٹر میں ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے، اور صرف پہلے ہی دن انہوں نے ساڑھے تین سو افراد کو پکڑا تھا اور اب تک دو سپلائرز کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔

’ابتدائی طور پر ان کی صفائی کی گئی، بال کاٹ دیے، نہلوایا، داخل کروایا اور ان کو ڈی ٹاکس کروانا شروع کیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان مریضوں کو صرف داخل کروانا ہی مقصد نہیں تھا بلکہ ان کا مکمل علاج کروا کرانہیں معاشرے کے کارآمد افراد بنانا تھا، جس کی خاطر حکومت نے چند کارخانہ داروں اور مختلف اداروں سے بات چیت کی ہے، جو ان سب کو ملازمتیں فراہم کریں گے۔

شفیع اللہ خان کا کہنا تھا: ’جن کے پاس جو بھی ہنر ہے ان کو روزگار مہیا کیا جائے گا، جن کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے، ان کو تربیت دی جائے گی۔‘

اس منصوبے کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کے دفتر کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر اس منصوبے کے لیے 10 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی، تاہم وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے اس پروگرام کی اہمیت اور افادیت کو دیکھتے ہوئے اس میں ضرورت کے تحت مستقبل میں مزید پیسے خرچ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

ساتھ ہی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پروگرام کو پشاور کے بعد دوسرے اضلاع تک بھی بڑھایا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان