عرب نیٹو کا خواب

مشرق وسطیٰ میں نیٹو کے عرب ایڈیشن کا خواب بیچنے والوں کو خطے کے غم دور کرنے کی خاطر یورپی یونین کے اقتصادی تعاون کا ماڈل بھی آزمانا چاہیے۔

امریکی حکام میں سے ایک نے پچھلے ہفتے رپورٹروں کو بتایا کہ ’صدر بائیڈن کے دورۂ مشرق وسطیٰ میں منفرد نوعیت کی چیزیں آگے بڑھیں گی۔ بشمول نیول ٹاسک فورس اور دفاعی ڈھانچے کا قیام۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

دو ہفتے قبل اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن الحسین کا ایک بیان شہہ سرخیوں کا موضوع بنا رہا جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ ’اگر خطے میں نیٹو طرز کے اتحاد کی داغ بیل رکھی جاتی ہے تو ان کا ملک بخوشی اس کا حصہ بنے گا۔‘

تاہم انہوں اس بارے میں یہ بھی کہا، ’ایسے فوجی اتحاد کا چارٹر بہت واضح رکھنے کی ضرورت ہوگی۔‘

اردن کے بادشاہ یہ بات کرتے ہوئے شاید اس حقیقت سے آگاہ نہیں تھے کہ ایک دہائی قبل امارات، مصر اور سعودی عرب اس نوعیت کے اتحاد کی بنیاد جزوی طور پر رکھ چکے ہیں۔

اردن کے فرمانروا کے بقول: ’اگر نیٹو جیسا فوجی اتحاد وجود میں لایا جاتا ہے تو وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جو سب سے پہلے اس کی تائید کریں گے، لیکن ضروری ہے کہ یہ پوری دنیا پر محیط ہو۔‘

نیز بڑا واضح ہو ’کہ ہم (عرب) اس میں کیسے آئیں گے، اس اور ہمارے لیے یہ کیا اور کیسے کرے گا۔ بصورت دیگر یہ ہر ایک کو کنفیوز رکھے گا۔‘

یادش بخیر، رواں برس ماہ جون میں امریکی قانون سازوں نے کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اس طرح کے بل پیش کیے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں عربوں اور اسرائیل کے مشترکہ فضائی دفاعی نظام کی تشکیل کا باعث بن سکیں اور ایران کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ان مسودہ ہائے قانون میں ایرانی ڈرون طیاروں کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کے علاوہ خطے میں موجود امریکی فوجیوں کی جانوں کو محفوظ رکھنا بھی ہدف قرار دیا گیا ہے۔

کانگریس کے دونوں ایوانوں میں یہ بل الگ الگ پیش کیے گئے مگر ان کی تھیم ایک جیسی ہے۔ ایوان نمائندگان میں پیش کیا گیا مذکورہ بل ڈیموکریٹ اور رپبلکن دونوں طرف کے قانون سازوں نے مشترکہ طور پر پیش کیا ہے۔ صدر جو بائیڈن کے دورے سے محض چند ہفتے پہلے قانون سازی کا یہ ڈول ڈالا جانا اہم ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کے ایک سرکاری ذمہ دار نے اس بارے میں کہا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان کسی نام کے بغیر پہلے سے ہی ایک بے نامی قسم کا دفاعی تعاون موجود ہے، جو ایرانی حملوں کو ناکام بھی بنا چکا ہے۔

اب جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن رواں مہینے کے دوسرے ہفتے میں مشرق وسطیٰ کے دورے پر آ رہے ہیں تو ایران کی طرف سے خطے کو درپیش خطرے اور اس کا تدارک ایک اہم ایشو ہے۔ جو بائیڈن اسرائیل سے ہو کر سعودی عرب جائیں گے۔

بظاہر وہ اسرائیل اور عرب ممالک کے لیے ایرانی خطرے کا توڑ معاہدہ ابراہیم سے جوڑتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اس معاہدہ ابراہیم کی وجہ سے اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ اس لیے عرب اسرائیل قربت اور تعاون کی راہیں کھولنے کے لیے معاہدہ ابراہیم کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔

امریکی حکام میں سے ایک نے پچھلے ہفتے رپورٹروں کو بتایا کہ ’صدر کے دورۂ مشرق وسطیٰ میں منفرد نوعیت کی چیزیں آگے بڑھیں گی۔ بشمول نیول ٹاسک فورس اور دفاعی ڈھانچے کا قیام۔‘

خلیجی ملکوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات اور خطے سے امریکہ کی بتدریج واپسی کے باوجود کئی مبصرین سمجھتے ہیں کہ نیٹو طرز کے اتحاد سے متعلق باتیں دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہیں۔

فوجی اتحاد، قومی سلامتی سے متعلق ایک بین الاقوامی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت اتحادی کسی بحران کی صورت میں ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے آمادہ و تیار رہتے ہیں۔ تاہم بقول اردن کے شاہ عبداللہ: ’عرب نیٹو جیسے متوقع اتحاد کے سلامتی سے متعلق مقاصد اور مشترکہ خطرات ابھی واضح نہیں ہو سکے۔‘

اس ضمن میں کچھ مزید ایسے معاملات ہیں جو فی الحال تو نظر سے اوجھل ہیں تاہم ان کا متوقع اتحاد کے حوالے سے کسی بھی وقت سامنے آ جانا ایک مستقل خطرہ ہے، جو تلوار کی صورت تمام سٹیک ہولڈرز کے سر پر لٹکتا رہے گا۔ اس اتحاد میں جن ملکوں کی شرکت متوقع ہے ان کے سکیورٹی ایشوز اور فوجی ترجیحات یکساں نوعیت کی نہیں بلکہ ہمہ جہت ہیں۔

اتحاد کے اہم مقاصد میں ایرانی خطرات کا مقابلہ کرنا بھی اہم نکتہ ہوگا لیکن خطے میں ایران کے خیالات سے متعلق علاقے میں کئی قسم کی پالیسیاں ایک ساتھ چل رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب تک اتحاد میں شمولیت کے خواہاں ملکوں نے اسرائیل سے تعلقات استوار نہیں کیے کہ جو اس نوعیت کا مشترکہ معاہدہ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ نیز اتحاد میں امکانی طور پر شامل ہونے والے چند رکن ملک ایسے ہیں کہ جنہوں نے اپنی سلامتی کا تانہ بانہ بیرونی سے زیادہ خود کو درپیش اندرونی چیلنجز کو سامنے رکھ کر تیار کیا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیش آئند اتحاد میں شامل ملکوں کی جانب سے درپیش مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لیے درکار حکمت عملیاں اور پالیسیوں کی نشاندہی کرنا ہنوز باقی ہے۔

اس ضمن میں ہونے والی بات چیت کا محور فضائی دفاع میں تعاون رہا ہے جو حملہ روکنے کی خاطر خفیہ معلومات اور فوجی آپریشنل منصوبہ بندی سے متعلق معلومات کے تبادلے کی صورت میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ فضائی دفاع سے متعلق صلاحیت کی بنا پر ترکی اس اتحاد میں نام کی حد تک رکن ہونے کے بجائے ایک اہم شریک بن کر سامنے آ سکتا ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں سے انقرہ، خلیج تعاون کونسل اتحاد میں شامل رکن ملکوں کے ساتھ دفاعی اور فوجی تعاون کرتا چلا آ رہا ہے۔ ترکی دراصل 2004 میں شروع کیے جانے والے استنبول تعاون اقدام کے آغاز کا روح رواں رہا ہے۔ اس میں متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور بحرین شامل تھے۔ اس شراکت کاری کو بعد ازاں سفارتی مشاورت سے لے کر تریبتی پروگرامات جیسی سرگرمیوں تک آگے بڑھایا جا چکا ہے۔

مذکورہ تعاون کے عملی مظاہر میں کویت اور نیٹو نے سنہ 2017 کو نیٹو۔استنبول نے علاقائی تعاون کے مرکز کا آغاز کرتے ہوئے اسے ’خلیج میں نئے اتحاد کا گھر‘ قرار دیا۔ علاقائی تعاون کے اس پلیٹ فارم سے نیٹو میں شامل ملکوں اور جی سی سی کے فوجی افسران میری ٹائم سکیورٹی، توانائی کے انفراسٹرکچر کے تحفظ سمیت سائبر سکیورٹی معاملات پر تربیتی کورسز میں شرکت کر رہے ہیں۔

اسی طرح خطے میں نیٹو کی پالیسیوں کو 1994 میں طے پانے والے بحیرہ روم ڈائیلاگ کی روشنی میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ مذکورہ معاہدے پر اسرائیل سمیت چھ عرب ملکوں موریطانیہ، مراکش، الجزائر تیونس، مصر اور اردن نے دستخط کر رکھے ہیں۔

ان حقائق کی روشنی میں فی الوقت جس نئی بحث کا آغاز ہوا ہے اس میں بہہ کر خطے کے ممالک کو دفاعی اتحاد کی اہمیت کے ساتھ یورپی یونین کی طرز کے اتحاد کی اہمیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ جو خطے کی معاشی صورت حال میں بہتری کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیونکہ القاعدہ ایسی انتہا پسند تنظیمیں معاشی ابتری کو بھی اپنے مقاصد کی ترویج میں بطور ڈھال استعمال کر رہی ہیں۔

ایسے میں ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی نیا فوجی اتحاد بنانے کے بجائے پہلے سے موجود ملتے جلتے ڈھانچوں میں بہتری لا کر کام چلا لیا جائے۔ تاہم یہ امر طے شدہ ہے کہ فی الوقت نیٹو اور جی سی سی کے درمیان تعلقات کی مضبوطی ہی دراصل خلیجی ریاستوں کے مفادات کی ضامن ومحافظ بن سکتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ