لوڈ شیڈنگ: یو پی ایس اور بیٹریوں کی قیمتوں میں ’سو فیصد‘ اضافہ

اسلام آباد میں یو پی ایس اور بیٹریوں کا کاروبار کرنے والے محمد عمیر کے مطابق: ’بغیر كسی شک و شبہ کے یو پی ایس اور بیٹریوں کی جو قیمتیں مارچ میں تھیں، آج ان میں تقریباً سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘

ایک مکینک 11 جنوری 2021 کو کراچی میں اپنی ورکشاپ میں جنریٹرز کی مرمت کر رہا ہے۔ لوڈ شیڈنگ میں اضافے کے باعث ملک بھر میں جنریٹرز، یو پی ایس اور بیٹریوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’یو پی ایس خراب ہوگیا تھا اور مارکیٹ سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ میں اپنی تنخواہ میں یہ خرچہ پورا نہیں کر سکوں گا اور زیادہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے یو پی ایس کے بغیر گزارا بھی نہیں تھا۔‘

دوسرا كوئی راستہ نہ ہونے كے باعث اسلام آباد کے رہائشی عبدالحق ماجد نے مجبوراً اپنی موٹر سائیکل فروخت کر دی اور نیا یو پی ایس سسٹم گھر لے آئے۔

تین بچوں کے والد عبدالحق اب دفتر آنے جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عبدالحق نے بتایا کہ اپریل کے آخری ہفتے میں ہی ان کے گھر میں لگا یو پی ایس خراب ہو گیا اور اسے تبدیل کیے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا: ’یو پی ایس لگا کر اب میں اس شدید گرمی میں پبلک ٹرانسپورٹ پر زیادہ پیسے اور وقت لگا کر دفتر آنا جانا كر رہا ہوں، لیکن گھر پر زندگی میں اب کسی حد تک آرام ہے۔‘

ویسے تو پاکستان کے اکثر شہروں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ معمول ہے لیکن گذشتہ تقریباً چار مہینے سے موسم کی حدت میں اضافے سے لوڈشیڈنگ میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور ان شہروں اور علاقوں کو بھی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے جہاں بجلی ہر وقت موجود رہتی تھی۔ اس صورت حال میں عبدالحق ماجد جیسے لاکھوں پاکستانی گھرانوں کے لیے یو پی ایس ایک ضروری گھریلو شے بن گئی ہے۔

راولپنڈی کے رہنے والے محمد ثقلین بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، جنہوں نے گذشتہ ماہ ایک بڑی رقم خرچ کر کے اپنے گھر کے لیے نیا یو پی ایس خریدا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے گھر میں یو پی ایس لگا ہوا تھا لیکن 2018 کے بعد سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے باعث اس آلے كا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا۔

بقول محمد ثقلین: ’اس سال مارچ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی تو یو پی ایس نے کچھ عرصہ تو کام کیا، لیکن دو مہینے بعد ہی اس كی بیٹری بالکل خاموش ہو گئی اور پھر اسے تبدیل کیے بغیر دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

ان کے گھر میں لگا ہوا یو پی ایس تو ٹھیک تھا تاہم 30 ہزار روپے خرچ کرکے انہیں یو پی ایس کے لیے نئی بیٹری خریدنی پڑی۔

قیمتوں میں ہوشربا اضافہ

محمد ثقلین نے بتایا: ’ابھی مارچ كے شروع میں ایک دوست کے لیے یو پی ایس كی بیٹری خریدی تھی، لیکن جون میں اپنے لیے دوگنی قیمت ادا كرنا پڑی۔‘

بجلی کی بہت زیادہ لوڈ شیڈنگ کے باعث یو پی ایس کا استعمال بڑھ گیا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اسلام آباد میں یو پی ایس اور بیٹریوں کا کاروبار کرنے والے محمد عمیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ مارچ کے بعد سے یو پی ایس اور اس کے ساتھ استعمال ہونے والی دوسری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’بغیر كسی شک و شبہ کے یو پی ایس اور بیٹریوں کی جو قیمتیں مارچ میں تھیں، آج ان میں تقریباً سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘

محمد عمیر نے بتایا کہ جو یو پی ایس 18 سے 20 ہزار روپے میں مل جاتا تھا اس کی قیمت 30 ہزار روپے سے زیادہ ہو گئی ہے، جبکہ بیٹریوں کی قیمتیں بھی اسی طرح تقریباً دوگنی بڑھی ہیں۔

راولپنڈی میں یو پی ایس کے ایک ڈیلر کے مطابق صرف اس آلے اور بیٹری کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ یو پی ایس لگانے میں جو دوسری چیزیں استعمال ہوتی ہیں وہ بھی مہنگی ہو گئی ہیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یو پی ایس کی تنصیب کرنے میں استعمال ہونے والی تاریں اور پلگز بھی مہنگے ہو گئے ہیں، جبکہ کاریگروں نے بھی مزدوری بڑھا دی ہے۔

’تمام چیزوں کے نرخوں میں اضافے کے باعث اب آپ کا یو پی ایس لگانے پر دو گنا سے زیادہ خرچ آتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’صارفین جتنا بڑا (زیادہ طاقت والا) یو پی ایس یا بیٹری لگاتے ہیں، ان کے خرچے میں اضافہ بھی اسی حساب سے زیادہ ہوتا ہے۔‘

اسلام آباد میں یو پی ایس کی بیٹریوں کے کاریگر محمد عامر نے بتایا کہ وہ عام طور پر بیٹری کا پانی بدلنے کا 500 روپے تک لیا کرتے تھے، تاہم اس سال کام زیادہ ہونے کے باعث انہوں نے ریٹس میں اضافہ کر دیا ہے۔

محمد عامر کا کہنا تھا: ’اب ہم ایک ہزار روپے سے كم نہیں لیتے، جو صرف مزدوری ہے، اضافی خرچے کا الگ سے مطالبہ کرتے ہیں۔‘

یو پی ایس ڈیلر محمد عمیر کا کہنا تھا کہ اچھی کوالٹی کے یو پی ایس بیرون ملک سے درآمد کیے جاتے ہیں اور ان کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر اور مہنگائی میں اضافے کے باعث در آمد کی جانے والی اشیا کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں۔

’آپ کے ہاں ڈالر مہنگا ہوا اور پیٹرول سمیت دوسری چیزوں کے نرخ بھی بڑھے تو ان عوامل کا اثر یو پی ایس اور بیٹریوں کی قیمتوں پر بھی پڑا۔‘

پاكستان یو پی ایس كی بہت بڑی تعداد چین سے در آمد كرتا ہے جبكہ ہانگ كانگ اور جرمنی سے بھی منگوائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں مقامی طور پر بھی یو پی ایس اور بیٹریاں بنائی جاتی ہیں اور محمد عمیر کے مطابق ان کی قیمتوں میں بھی تقریباً اسی تناسب سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکثر کم آمدنی والے گھرانے مقامی طور پر تیار کیے گئے یو پی ایس اور بیٹریاں استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔

تاہم الیکٹریکل انجینیئر اسد مغل کے مطابق مقامی طور پر تیار کیے گئے یو پی ایس اور بیٹریوں کی کوالٹی اور کارکردگی بہت بہتر نہیں ہوتی، جس وجہ سے وہ جلدی خراب ہونے کے علاوہ گھر میں موجود بجلی کے آلات کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اس سال زیادہ یو پی ایس خراب ہوئے!

یو پی ایس اور بیٹریوں کے کاریگر محمد عامر نے تسلیم کیا کہ اس موسم سرما میں یو پی ایس کے خراب ہونے کی شکایات زیادہ موصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’گذشتہ تقریباً دو مہینوں سے ہم دن میں دو دو درجن شکایات موصول کر رہے ہیں اور کام بڑھتا ہی جا رہا ہے، جبکہ کاریگر کم پڑ گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اکثر گھروں اور دفاتر میں چیک کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ بیٹری میں پیدا ہوا ہے، جسے ممکن ہونے کی صورت میں مرمت کر لیا جاتا ہے، ورنہ نئی بیٹری خریدنا ضروری ہو جاتا ہے۔

الیكٹریكل انجینیئر خالد شمشاد نے یو پی ایس اور بیٹریوں کے زیادہ خراب ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 2018 کے بعد سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر تھی، جس کی وجہ سے گھروں اور دفاتر میں لگے ہوئے یو پی ایس آلات کا استعمال بہت کم رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ خصوصاً پانی والی (wet) بیٹری استعمال نہ ہونے کی صورت میں بالکل خشک ہو جاتی ہے اور اس میں نصب پلیٹیں تڑخ کر کام بند کر دیتی ہیں۔

’چونکہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی تھی تو صارفین نے یو پی ایس کی بیٹری کا پانی چیک کرنا بند کر دیا تھا، جس کے باعث وہ خشک ہوگئیں اور ضرورت پڑنے پر کام نہیں کر رہیں۔‘

اسلام آباد میں بیٹریوں كے ڈیلر محمد فیضان نے انڈپینڈنٹ اردو كو بتایا كہ اس سال مئی اور جون کے مہینے میں انہوں نے بیٹریوں کی ریکارڈ تعداد فروخت کی، جس کی بڑی وجہ گھروں میں موجود بیٹریوں کا خشک ہو جانا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اکثر شکایات پر جب کاریگر یو پی ایس چیک کرتے تو اس کی بیٹری خشک ملتی اور اہل خانہ اس کی وضاحت میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے باعث پانی کا نہ ڈالنا قرار دیتے۔

محمد فیضان نے گھروں اور دفاتر میں استعمال ہونے والے یو پی ایس کی بیٹریوں میں پانی کا چیک کیا جانا ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کی صورت میں بھی بلا تعطل بجلی کی سپلائی برقرار رکھنے والے آلے کو ضرور استعمال کیا جانا چاہیے۔

’اگر آپ کے ہاں بجلی نہیں بھی جا رہی تو ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ واپڈا کی بجلی بند کر کے گھر میں الیکٹرک آلات ایک آدھ گھنٹے کے لیے یو پی ایس پر چلائیں اور بیٹری میں پانی بھی باقاعدگی سے ڈالیں۔‘

انہوں نے كہا كہ اس طرح یو پی ایس کی کارکردگی ٹھیک رہے گی، بیٹری کی بجلی سٹور کرنے (چارج ہونے) کی صلاحیت بھی برقرار رہے گی اور دونوں آلات زیادہ عرصہ کام کرتے رہیں گے۔

یو پی ایس کا بجلی کے نظام پر اثرات

گذشتہ کئی عشروں سے پاکستان توانائی کے شدید بحران سے دو چار ہے، جس کے باعث ملک میں لوڈشیڈنگ کا سہارا لیا جاتا ہے، جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے گھروں اور دفاتر میں یو پی ایس کا استعمال عام ہو گیا ہے۔

لاہور کی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ لوڈ شیڈنگ کے باعث پاکستان میں غیر معیاری یو پی ایس کے استعمال کی بھرمار ہے، جو تقریباً ہر پاور سسٹم کے اجزا اور منسلک آلات کے لیے تکنیکی اور اقتصادی طور پر خطرہ ہے۔

تحقیق میں پاکستان کے بجلی کے نظام سے یو پی ایس کے نظام کو خارج کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، کیونکہ یہ دوسرے خطرات کے علاوہ گھروں اور دفاتر میں ان پر چلنے والے بجلی کے آلات کی زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔

تحقیق کاروں کے خیال میں پاکستان میں یو پی ایس کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے لوگوں کی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس کے تکنیکی اور اقتصادی طور پر دوستانہ متبادل کی طرف پلٹ سکیں۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا: ’یو پی ایس کی بجائے شمسی توانائی کی مدد سے چلنے والے سسٹم (سولر بیسڈ اِن ہاؤس سسٹم) کے ذریعے بدلا جا سکتا ہے، جس میں ڈی سی نیٹ ورکنگ کو ترجیح دی جائے۔'

تحقیق كاروں كے خیال میں برقی توانائی كی غیر موجودگی میں یو پی ایس كا زیادہ استعمال عوام كی كم علمی اور غربت ہے، اس لیے ایسا حل فراہم كرنے كی ضرورت ہے، جو نہ صرف تکنیکی طور پر بہترین ہو بلکہ عام آدمی کی جیب سے بھی مطابقت ركھتا ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان