پرانی زنگ آلود بیٹریز میں توانائی ذخیرہ کرنے کی پیشرفت

1878 میں ایجاد ہونے والی آئرن ایئر بیٹریز قیمت کے مقابلے میں لیتھیم آئن بیٹریز سے کہیں زیادہ توانائی کو سٹور کر سکتی ہیں تاہم زنگ لگنے کی وجہ سے وہ اب ری چارجنگ کے قابل نہیں ہیں۔

جنوبی غزہ کی ایک لینڈ فل سائٹ پر موجود بیکار اور زنگ آلود بیٹریز کا انبار لگا ہوا ہے یہ بیٹریز علاقے میں توانائی ذخیرہ کرنے کی بنیادی سہولت سمجھی جاتی ہے (تصویر: اے ایف پی فائل)

سائنسدانوں نے 140 سال پرانی ٹیکنالوجی کی شکل میں مہنگی اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی لیتھیم آئن بیٹریز کا متبادل دریافت کیا ہے جو سمارٹ فونز سے لے کر الیکٹرک کاروں تک ہر چیز میں استعمال ہوتی ہیں۔

1878 میں ایجاد ہونے والی آئرن ایئر بیٹریز قیمت کے مقابلے میں لیتھیم آئن بیٹریز سے کہیں زیادہ توانائی کو سٹور کر سکتی ہیں تاہم زنگ لگنے کی وجہ سے وہ اب ری چارجنگ کے قابل نہیں ہیں۔

میسی چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی ایک ٹیم نے اب دعویٰ کیا ہے کہ ’ریورس رسٹنگ‘ نامی عمل کو ٹھیک کرکے نئے ڈیزائن کے ذریعے ان بیٹریوں میں توانائی کو چارج اور اسے ڈسچارج کرنے کے قابل بنایا گیا ہے۔

ایم آئی ٹی میں الیکٹرو کیمسٹری کے پروفیسر یٹمنگ چیانگ نے امریکی ڈیجیٹل میگزین ’پاپولر سائنس‘ کو بتایا کہ ’آئرن ایئر بیٹریز کو توانائی ذخیرہ کرنے کے لیے تجارتی سطح پر بڑھایا جا سکتا ہے اور اس سے وسط صدی تک موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’جب آپ بیٹری پر برقی رو کو ریورس کرتے ہیں تو اس سے بیٹری کا زنگ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا بیٹری ڈسچارج ہو رہی ہے یا چارج ہو رہی ہے کیوں کہ الیکٹران یا تو لوہے سے خارج ہو رہے ہوتے ہیں یا اس میں جمع ہو رہے ہوتے ہیں۔‘

اس عمل سے آئرن ایئر بیٹری سے 100 گھنٹوں تک چلنے والی ماحول دوست بجلی فراہم کی جا سکتی ہے جس کی لاگت محض 20 ڈالر کلو واٹ فی گھنٹہ بنتی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں لیتھیم آئن بیٹریوں میں یہ لاگت 200 ڈالر کلو واٹ فی گھنٹہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میٹل ایئر بیٹریز ان بیٹریز کی تین اقسام میں سے ایک ہے جن میں ایلومینیم اور زنک شامل ہیں اور جو ایٹموسفیرک آکسیجن کو سب کیتھوڈ کے طور پر اینوڈ کے طور پر وافر مقدار میں استعمال کرتی ہیں۔

یہ بیٹریاں گذشتہ صدی میں تجارتی سطح پر استعمال ہوتی رہی ہیں مثال کے طور پر 1930 کی دہائی میں سماعت کے آلات میں اور ناسا نے 1960 کی دہائی میں خلائی نظام میں اسے استعمال کیا تھا تاہم وہ بڑی حد تک ناقابل عمل ثابت ہوئیں۔

اگرچہ اس پیشرفت کو بڑے پیمانے پر صارفین کی الیکٹرانکس اور الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال میں بہت دیر ہو سکتی ہے لیکن پروفیسر چیانگ کا خیال ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر قابل تجدید آپریشنز کے لیے توانائی کے ذخیرے میں انقلاب لا سکتی ہے۔

انہوں نے زیرو کاربن توانائی کے حل کو تیزی سے آگے بڑھانے کی امید کے ساتھ ’فارم انرجی‘ کے نام سے ایک سٹارٹ اپ کی بنیاد رکھی ہے تاکہ اس ٹیکنالوجی کو مزید ترقی دی جاسکے اور تجارتی سطح پر تیار بھی کیا جاسکے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی