برطانوی فوج پر نہتے افغانوں کے قتل کا الزام بلاجواز: وزارت دفاع

برطانوی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ وہ مخصوص الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی لیکن تبصرہ کرنے سے انکار کو الزامات کے حقائق پر مبنی اور درست ہونے کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔

برطانوی فوج کا میڈیکل کور افغانستان میں 27 اکتوبر 2007 کو صوبہ ہلمند میں مقامی گاؤں میں طبی معائنہ کر رہا ہے (تصویر: اے ایف پی فائل)

برطانوی وزارت دفاع نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پروگرام ’بی بی سی پینوراما‘ کی رپورٹ جو شیڈول کے مطابق منگل 12 جولائی 2022 کو نشر کی جانی ہے اس میں ان الزامات سے بلاجواز نتائج اخذ کیے گئے جن کی پہلے ہی مکمل تحقیقات کی جا چکی ہیں۔

بی بی سی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ برطانوی فوج کے خصوصی دستے سپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کے اہلکاروں نے افغانستان میں  تعیناتی کے دوران کئی بار مشکوک حالات میں قیدیوں اور غیر مسلح افراد کو قتل کیا۔ تازہ حاصل کی جانے والی فوجی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ ایس اے ایس یونٹ نے چھ ماہ کے دورے میں غیر قانونی طور پر شائد 54 افراد کو ہلاک کیا ہوگا۔

دوسری جانب برطانوی وزرت دفاع کا کہنا ہے کہ برطانوی فوجیوں نے ’افغانستان میں ہمت اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ خدمات انجام دیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت مخصوص الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی لیکن تبصرہ کرنے سے انکار کو الزامات کے حقائق پر مبنی اور درست ہونے کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔

2010 اور 2011 کے دوران ایس اے ایس سکواڈرن کے ساتھ خدمات انجام دینے والے افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایس اے ایس کے اہلکاروں نے رات کے وقت مارے گئے چھاپوں میں غیر مسلح افراد کو قتل کیا۔ ان افراد نے اہلکاروں کو ’ہتھیار رکھ دو‘ کا نام نہاد ہتھکنڈا استعمال کرتے دیکھا جس کے تحت غیر مسلح شخص کے قتل کا جواز پیش کرنے کے لیے جائے وقوعہ پر اے کے47 رائفلیں پھینکی گئیں۔

مشکوک قتل کا مخصوص انداز

بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 29 نومبر 2010 کو سکواڈرن نے ایک ایسے شخص کو ہلاک کیا جنہیں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ انہیں ایک عمارت کے اندر واپس لے جایا گیا جہاں انہوں نے ’دستی بم سے فورس پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔‘

15 جنوری 2011 کو سکواڈرن نے ایک شخص کو قتل کیا جنہیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔ انہیں ایک عمارت کے اندر واپس لے جایا گیا تھا، جہاں انہوں ’ایک گدے کے پیچھے جا کر دستی بم نکالا اور اسے پھینکنے کی کوشش کی۔‘

سات فروری کو سکواڈرن نے ایک قیدی کو قتل کر دیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’گشت کرنے والوں رائفل سے الجھانے کی کرنے کی کوشش کی تھی۔‘ یہی جواز نو فروری اور 13 فروری کو قیدیوں کی جاں لیوا فائرنگ کا بھی دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

16 فروری کو سکواڈرن نے دو قیدیوں کو اس وقت ہلاک کر دیا جب ایک نے ’پردے کے پیچھے سے‘ دستی بم پھینکا اور دوسرے نے ’ایک میز کے پیچھے سے اے کے 47 اٹھائی۔‘

یکم اپریل کو سکواڈرن نے دو قیدیوں کو ہلاک کر دیا جن کو عمارت کے اندر واپس بھیج دیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک نے ’اے کے 47‘ رائفل اٹھانے اور دوسرے نے ’دستی بم پھینکنے کی کوشش‘ کی تھی۔

برطانیہ کی سپیشل فورسز کے ہیڈ کوارٹر میں کام کرنے والے ایک سینیئر افسر نے نشریاتی ادارے کو بتایا: ’رات کے چھاپوں میں بہت سے لوگ مارے جا رہے تھے اور وضاحتیں سمجھ سے بالاتر تھیں۔‘

برطانوی نشریاتی ادارے نے 2010/11 میں ایسے گھروں کا دورہ کیا جہاں ایس اے ایس سکواڈرن نے چھاپے مارے تھے۔ ہلمند کے رہائشی ناد علی نے اپنے چھوٹے سے گاؤں میں مہمان خانہ بنا رکھا تھا جہاں سات فروری 2011 کو علی الصبح ایک نوجوان سمیت نو افغان افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ایس اے ایس کے اہلکار رات کے اندھیرے میں ہیلی کاپٹروں میں وہاں پہنچے اور قریبی کھیت سے گزرتے ہوئے گھر کے قریب چلے گئے۔ اہلکاروں کے بیان کے مطابق باغیوں نے ان پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں انہوں نے جوابی فائرنگ کی اور مہمان خانے میں موجود ہر شخص کو ہلاک کر دیا۔

2014 میں برطانوی رائل ملٹری پولیس آپریشن نارتھ مور کا آغاز کیا جو افغانستان میں برطانوی فورسز کے چھ سو سے زیادہ مبینہ جرائم کی وسیع پیمانے پر تحقیقات ہے جس میں ایس اے ایس سکواڈرن کے ہاتھوں متعدد ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن آر ایم پی کے تفتیش کاروں کے بقول ثبوت اکٹھا کرنے کی کوششوں میں برطانوی فوج نے رکاوٹ ڈالی۔ آپریشن نارتھ مور 2018 میں ختم کردیا گیا تھا اور بالآخر2019 میں بند کردیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ