پاکستان، ٹی ٹی پی مذاکرات میں کن باتوں کا خیال رکھا جائے

ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان مذاکرات پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور مسائل کا حل بھی دونوں فریقین ہی نے نکالنا ہے تو ثالث پر دباؤ ڈالنے کی کوشش غیر ضروری عمل ہو گا۔

اورکزئی میں 26 نومبر 2008 کو لی گئی تصویر میں سابق ٹی ٹی پی رہنما حکیم اللہ محسود کے قریقی ساتھ لطیف محسود اور دیگر جنگجو (اے ایف پی)

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے پانچ جولائی کے اجلاس میں عسکری قیادت کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ جاری بات چیت کو آگے بڑھانے کی باضابطہ منظوری کے بعد پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی قیادت کے ساتھ مذاکرات کی ایک اور نشست ہوئی ہے۔

کابل میں چھ جولائی کو ہونے والی نشست سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ’ملاقات میں پہلے سے چلنے والے ایجنڈے پر بات ہوئی ہے اور ان تجاویز پر گفتگو ہوئی ہے کہ کس طرح ایک امن معاہدے کی طرف پیش رفت ہو سکے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات جاری رکھنے پر اور جنگ بندی کو جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔ 

تاہم اس حوالے سے پاکستانی حکومت کی جانب سے کوئی بیان یا حالیہ ترین ملاقات کی تصدیق سامنے نہیں آئی ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت کو ایک لحاظ سے نیا مینڈیٹ ملا ہے۔ اس نئی پیش رفت کے بعد پارلیمنٹ کو ماضی میں اہم معاملات میں نظر انداز کرنے کا تاثر بھی کسی حد تک زائل ہو جائے گا۔ تاہم یہ دیکھنا ہو گا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات جیسے اہم معاملات میں واقعی پارلیمنٹ کو کوئی کردار دیا گیا ہے یا میڈیا میں پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنے پر تنقید کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر ایک رسمی کارروائی کی گئی۔

پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی نگرانی کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنانے کی بھی منظوری دی گئی تھی، جو آئینی حدود میں اس عمل کی نگرانی کی ذمہ دار ہو گی۔ اس میں شاید دو رائے نہیں ہو گی کہ سکیورٹی سے متعلق معاملات میں سکیورٹی ادراوں کا کردار اہم ہوتا ہے لیکن ’سیاسی ملکیت‘ بھی بہت ضروری ہے۔

ٹی ٹی پی مذاکرات کے مسئلے میں قبائلی مشران اور ان سیاسی اور مذہبی شخصیات کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے جن کی بات سنی جاتی ہے یا جن کے قبائلی علاقوں میں گذشتہ 20 سال کے حالات میں کافی نقصان ہوا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی ممکنہ معاہدے کے بعد اس گروپ کے جنگوؤں کی واپسی ایک اہم معاملہ ہو گا اور اس میں قبائلی مشران اور قبائلی اضلاع سے منتخب اراکین پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کو ضرور اعتماد میں لینا چاہیے۔ اس معاملے میں سیاسی اختلافات کو بھی ایک طرف رکھ کے آگے بڑھنا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں حکومت اور اپوزیشن قیادت کو نظرانداز کرنا بھی بڑی غلطی ہو گی۔

ویسے بھی پہلی مرتبہ گذشتہ سال اکتوبر میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انکشاف کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات افغانستان میں ہو رہے ہیں اور طالبان حکومت مذاکراتی عمل میں مدد کر رہی ہے۔ معاملے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگست میں افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے چند ماہ کے بعد پڑوسی ملک کے نئے حکمراں سہولت کاری، میزبانی اور ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی ٹی پی اور پاکستانی ریاستی اداروں کے درمیان مذاکرات کے سلسلے میں افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا نام لیا جاتا ہے۔ طالبان کی اسلامی امارت کی حکومت میں ایک اہم نام سراج الدین حقانی نے یکم اور دو جون کو کابل میں پشتون مشترکہ جرگے سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مذاکرات میں شرکت کی تھی اور اپنی تقریر میں مسائل کے پرامن حل پر زور دیا تھا۔

میں نے جون کے آخری ہفتے میں سراج الدین حقانی کے ساتھ کابل میں ایک ملاقات میں ٹی ٹی پی سے پاکستانی حکومت کے مذاکرات کے حوالے سے کئی سوالات کیے جس میں ان کے کردار سے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ ان کا ذاتی ہے یا طالبان حکومت کا تھا تو انہوں نے کہا کہ ’اگست میں طالبان حکومت بننے کے بعد کابل میں اکثریت کا موقف تھا کہ افغانستان میں 20 سال کی جنگ ختم ہوئی ہے تو پڑوسی ملک میں بھی تشدد کے واقعات کا خاتمہ ہو کیونکہ پاکستان میں جاری تشدد افغانستان پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گا۔‘

ان کے بقول ’ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان سہولت کاری یا ثالثی کا کردار اسلامی امارت کا فیصلہ تھا نہ کہ ایک شخص کا۔‘

سراج الدین حقانی مذاکرات کے دوران پاکستانی فریقین کے جانب سے ایسے بیانات دینے کے مخالف تھے جو مذاکرات پر منفی اثرات ڈال سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات میرے اس سوال کے جواب میں کی جب میں نے پاکستانی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے کئی بیانات اور ان بیانات پر ٹی ٹی پی کے سخت ردعمل کے حوالے سے پوچھا۔ رانا ثنااللہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہی ہوں گے، آئین سے بالاتر کسی معاملے اور مطالبے پر بات چیت نہیں ہو گی اور نہ ہی ملک کے آئین سے ماورا کوئی معاہدہ کیا جائے گا۔

اگرچہ پاکستانی حکومتوں کا یہ موقف نیا نہیں لیکن مذاکرات کے دوران اگر بیانات کو کچھ عرصے کے لیے روک دیا جائے تو یہ اعتماد سازی کے لیے اہم ہو گا۔ ویسے بھی پاکستانی مذاکراتی ٹیم آئین سے متعلق پاکستانی موقف واضح کر چکی ہو گی۔ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات ویسے بھی ایک پیچیدہ اور مشکل عمل ہے اور اس میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ فریقین کی جانب سے غیر ضروری اور نامناسب بیانات ثالث کے لیے بھی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سراج الدین حقانی نے بیانات سے احتراز کرنے کا کہا ہے۔ سراج الدین حقانی نے مذاکرات میں قبائلی مشران کے کردار کی اہمیت کا بھی ذکر کیا۔

ایک اور اہم مسئلے کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان مذاکرات پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور مسائل کا حل بھی دونوں فریقین ہی نے نکالنا ہے تو ثالث پر دباؤ ڈالنے کی کوشش غیر ضروری عمل ہو گا۔

ٹی ٹی پی قیادت کے ساتھ تازہ رابطہ عید الاضحیٰ سے پہلے ہوا تھا۔ اس سے پہلے سکیورٹی اداروں کے کہنے پر یکم اور دو جون کو کابل میں پشتون مشترکہ جرگے نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ جرگے کی خبریں میڈیا میں آنے کے بعد سیاسی جماعتوں نے جرگے کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر سوالات اٹھائے تھے۔ حکومتی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی نے مذاکرات کا معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے فوری بعد متعلقہ سکیورٹی اہلکاروں کا ٹی ٹی پی رہنماؤں کے ساتھ رابطہ ہوا تھا۔ فوری رابطہ ظاہر کرتا ہے کہ سکیورٹی ادارے جلدی کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔

پاکستان میں تشدد کے خاتمے کے لیے مذاکرات عمل میں جلدی کرنا اہم ہے لیکن شدت پسندوں کے ساتھ ماضی میں ہونے والے معاہدوں کی ناکامی سے بھی سبق سیکھنا چاہیے اور ایسا معاہدہ ہونا چاہیے جس سے ملک میں پائیدار امن کا قیام یقینی ہو۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے تو غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی کا اعلان جون میں جرگے سے مذاکرات کے موقع پر کیا گیا تھا جس پر عمل ہو رہا ہے۔ لیکن اس دوران وزیرستان بالخصوص شمالی وزیرستان میں تشدد کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

اگرچہ سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے لیکن قبائلی اور شدت پسندی پر رپورٹنگ کرنے والے دیگر صحافیوں کا موقف ہے کہ ان حملوں میں حافظ گل بہادر کا گروپ ملوث ہے جو شمالی وزیرستان میں ایک فعال گروپ رہا ہے۔ حافظ گل بہادر گروپ کبھی بھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہیں رہا ہے۔

ان حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف ٹی ٹی پی کے ساتھ ہی مذاکرات کرنا کافی نہیں بلکہ تشدد کے مکمل خاتمے کے لیے ٹی ٹی پی کے علاوہ گل بہادر جیسی دوسری عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ بھی معاملات حل کرنے کی کوشش کی جانا چاہیے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ