ضمنی انتخابات کے بعد کیا ہونے جا رہا ہے؟

ضمنی انتخابات کے بعد کیا ہو گا؟ کیاہم اسی بحران سے دوچار ہونے جا رہے ہیں جس کا سامنا ہمیں 1970 کے عام انتخابات کے بعد کرنا پڑا؟

19 جون 2022 کی اس تصویر میں کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کے زیرانتظام مہنگائی کے خلاف ہونے والے ایک جلسے میں شریک خواتین کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

آدمی اپنی افتاد طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ عمران خان کا سفر سونامی سے شروع ہوا تھا، سری لنکا پہنچ چکا ہے۔ معلوم نہیں اس قافلہ شوق کی اگلی منزل کیا ہے؟

اس پورے سفر میں جو اصطلاحات استعمال کی جاتی رہیں، وہ بتا رہی ہیں کہ افتاد طبع کس پر مائل ہے۔

یہ تحریک اٹھی تو اسے سونامی سے تشبیہہ دی گئی۔ خیر خواہوں نے توجہ دلائی کہ سونامی کسی بہار کی آمد کی علامت نہیں، یہ تباہی اور تخریب کی علامت ہے لیکن کسی نے مان کر نہ دیا۔ اور اب جب سونامی تھم چکا ہے تو ضمنی انتخابات میں پڑھا جانے والا رجز یہ ہے کہ ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا تو ہم ’سری لنکا بنا دیں گے‘۔ محبت کی اس کہانی کا عنوان تخریب نہیں تو جنون ہے۔

مجھے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرنے دیجیے کہ تیسرا کوئی عنوان کم از کم میرے حاشیہ خیال میں نہیں آ رہا۔

انتخابات ایک ضابطے کے تحت ہوتے ہیں اور اس کا اطلاق الیکشن کمیشن کرتا ہے۔ کسی کو شکایت ہو تو الیکشن کمیشن سے رجوع کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے کسی فیصلے سے اختلاف ہو تو عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے۔

لیکن یہاں معاملہ ہی الگ ہے۔ ایک حکمت عملی کے تحت تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو متنازع بنا رکھا ہے۔

تازہ بیانیہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ثالث یا امپائر نہیں، ایک فریق ہے۔ اس الزام کی تائید میں کسی ثبوت کی کوئی ضرورت نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کو کسی بھی الزام کی تائید میں ثبوت دینے کی حاجت نہیں۔

پینتیس پنکچرز کا معاملہ ہو یا الیکشن کمیشن کی جانبداری کا، وہ دلیل اور شواہد سے بے نیاز ہو کر ایک موقف اختیار کرتی ہے اور غیر معمولی استقلال سے اسے دہراتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ زبان زد عام ہو جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی اس کردار کشی کی مہم میں یہ مطالبہ ہے ہی نہیں کہ وہ غیر جانبدار رہے۔ ارشاد یہ ہے کہ غیر جانبدار تو جانور ہوتا ہے۔

یعنی الیکشن کمیشن اگر تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہے تو وہ یا تو جانور ہے یا پھر دشمن۔ ہر دو صورتوں میں اس کے لیے کوئی امان نہیں۔

چنانچہ ماضی قریب میں ہم دیکھ چکے، عمران خان اور ان کے وزرا نے الیکشن کمیشن اور اس کے ضابطہ اخلاق سے کیسے بے نیاز ہو کر انتخابی جلسوں میں شرکت کی۔

اس بیانیے کے ساتھ اگر تحریک انصاف یہ الیکشن ہار جاتی ہے یا اتنی نشستیں نہیں جیت پاتی جس سے وہ پنجاب میں حکومت بنا سکے تو اس کا رد عمل کیا ہو گا؟ تحریک انصاف نے اس سوال کا جواب خود ہی دے دیا ہے کہ اس صورت میں ہم ’سری لنکا بنا دیں گے‘۔

سونامی سے سری لنکا بنانے تک کا یہ سفر اس پورے سماج کو دعوت فکر دے رہا ہے کہ ہم کس رخ پر جا رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی داخلی پالیسی ہو، معاشی ہو یا سفارتی افتاد طبع کے یہ مسائل ہر جگہ غالب نظر آتے ہیں۔ داخلی پالیسی میں رجز اور چھوڑوں گا نہیں کے علاوہ کچھ ہے تو یہ بریکنگ نیوز ہو گی۔ امور خارجہ میں تنہائی ہی تنہائی تھی۔

 مبالغہ آمیزی اتنی تھی کہ ٹرمپ سے محض ایک ملاقات پر کہا گیا یوں لگ رہا ہے جیسے میں ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آ رہا ہوں اور زمینی حقائق یہ تھے کہ کشمیر پر ایک دو ممالک کے استثنا کے ساتھ کوئی ملک ہمارے ساتھ نہیں کھڑا تھا۔ ہم کشمیر پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس تک نہ بلا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عشروں ہم نے امریکہ اور چین کے درمیان اور ایران اور سعودیہ کے ساتھ تعلقات میں جو حسن انتظام کر رکھا تھا وہ ڈانواں ڈول ہو گیا۔

دنیا میں نئی سفارتی صف بندی ہو رہی تھی اور ہم سے سب ہی خفا خفا سے تھے۔ چین بھی شکوہ کناں، امریکہ بھی ناراض، ایران بھی خفا اور سعودی عرب جیسے دیرینہ دوست سے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار۔

معاشی پالیسی یہ تھی کہ پہلے بلاوجہ آئی ایم ایف کے خلاف رجز پڑھے جاتے رہے پھر سب کچھ اس کی جنبش ابرو کے تابع کر دیا۔ آئی ایم ایف سے معاہدے توکر لیے لیکن عمل درآمد نہ کیا۔اعتماد کا ایسا بحران پیدا ہوا کہ آئی ایم ایف نے ناک سے لکیریں کھچوا دی ہیں۔

یہ افتاد طبع کسی اصول، کسی ضابطے کو خاطر میں نہیں لاتی۔ حتی کہ آئین بھی اس کے راستے میں حائل ہو تو قاسم سوری صاحب کی رولنگ سے تیشے کا کام لیا جاتا ہے۔ کسی ادارے کو امان نہیں۔ ریاستی اداروں کی ایسی کردار کشی کی جا رہی ہے جس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔

پہلی بار اس بے باکی کے ساتھ آئینی اداروں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے آئینی دائرہ کار کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تحریک انصاف کا ساتھ

 دیں۔ اور اگر وہ اپنے آئینی مینڈیٹ کے اندر رہ کر کام کرتے ہیں اور تحریک انصاف کے دست و بازو نہیں بنتے تو وہ جان لیں کہ نیوٹرل توجانور ہوتا ہے۔

سیاست سماج کی فالٹ لائن کو بھر دیتی ہے۔ لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس فالٹ لائن کو سنگ میل سمجھ لیا گیا ہے۔ لہجوں کی تلخی آزار بن چکی۔ معاشرے کو میدان جنگ بنا دیا گیا ہے۔ نفرت کا ایک الاؤ دہک رہا ہے۔اور سبھی فریق مستقبل کے خطرات سے بے نیاز اس الاؤ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

قومی سیاسی جماعت اپنی ساری خامیوں کے باوجود خیر کی قوت ہوتی ہے لیکن ہم ایک پریشان کن رجحان دیکھ رہے ہیں کہ عملی طور پر پیپلز پارٹی سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی ہے اور مسلم لیگ ن پنجاب کی۔ تحریک انصاف بھی اگرآنے والے دنوں میں کے پی کی ہو کر رہ جاتی ہے تو ذرا تصور کیجیے قومی سیاست کا منظر نامہ کیسا ہو گا۔

سوال وہی ہے: ضمنی انتخابات کے بعد کیا ہو گا؟ کیاہم اسی بحران سے دوچار ہونے جا رہے ہیں جس کا سامنا ہمیں 1970 کے عام انتخابات کے بعد کرنا پڑا؟

تب بھی شیخ مجیب صاحب کے بارے میں کچھ بنیادی فیصلے کرنے میں تاخیر کی گئی اور جب ہوش آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔

 کیا اب بھی ریاست گو مگو کی کیفیت کا شکار رہے گی یا کچھ ناگزیر فیصلے کر لیے جائیں گے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ