پوتن کی روسی بین الاقوامی تنہائی ختم کرنے کی کوشش

روسی صدر ولادی میر پوتن ایران کا دورہ کر رہے ہیں جہاں وہ ترک صدر اردوغان سے بھی ملیں گے۔ اس دورے کا مقصد کیا ہے؟

روسی صدر ولادی میر پوتن 18 جولائی 2022 کو ماسکو میں اپنی سرکاری رہائش گاہ میں ایک اجلاس میں (اے ایف پی، سپتنک)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

 

مشرق وسطیٰ اس وقت بڑی عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کچھ دن پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب اور اسرائیل کا دورہ کیا جبکہ اس ہفتے روسی صدر پوتن اور ترک صدر اردوغان تہران میں ایرانی قیادت کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔

پوتن کا دورہ اس وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے شاید وہ اپنی بین الاقوامی تنہائی کم کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

ایران سے بہتر تعلقات تو روس کے لیے اس کی بین الاقوامی تنہائی کم کرنے میں تو شاید زیادہ سودمند ثابت نہیں ہوں گے مگر ایک نیٹو ملک کے سربراہ سے ان کی تہران میں ملاقات سے دورے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اردوغان سے ملاقات کے لیے شام میں جاری خانہ جنگی کی خاتمے کے لیے بات چیت کا عذر استعمال کیا گیا ہے مگر اس میں بھی روس کی تنہائی ختم کرنے کی کوشش صاف دکھائی دے رہی ہے۔

ایران کے ساتھ روابط بڑھانے میں یوکرین میں جاری جنگ کا بھی ہاتھ ہے۔ گو روس کو حال ہی میں یوکرین میں کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں مگر ان کامیابیوں کو پائیدار بنانے میں کافی مشکلات درپیش ہیں۔ امریکہ کی طرف سے دیے جانے والے جدید اسلحے کی وجہ سے یوکرین روسی افواج کو کافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ ان نقصانات کا مقابلہ کرنے کے لیے روس کو جدید ٹیکنالوجی والے لڑاکا ڈرون طیاروں کی ضرورت ہے۔ ایران نے حال ہی میں ایسے ڈرون بنانے میں کافی مہارت حاصل کی ہے اور چونکہ اس وقت بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے روس کی ایسے ہتھیار حاصل کرنے اور بنانے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے تو اس دورے کے دوران ڈرون طیاروں کی خریداری ایک اہم موضوع گفتگو ہو گا۔ 

تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روس کی سستا تیل فروخت کرنے کی کوششوں نے بھی ایران کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایران معاشی پابندیوں کی وجہ سے چند ممالک کو ہی تیل بیچ سکتا ہے مگر روس نے بھی پابندیوں کی وجہ سے انہی ممالک کا رخ کیا ہے اور انہیں ایران سے بھی سستا تیل بیچ رہا ہے جس کی وجہ سے ایران میں اس شدید معاشی نقصان پر کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔

پوتن اس ناراضگی کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں گے اور کسی باہمی فاہدے کے معاہدے پر متفق ہوں گے جس سے روس کو بھی ایران کی مغربی پابندیوں کو جل دے کر تیل بیچنے کی مہارت سے فائدہ حاصل ہو سکے گا۔ ایران نے پچھلے سال کے آخری دس مہینوں میں تقریباً 28 ارب ڈالر کا تیل اسی طریقے سے بیچا تھا۔

اگر ان اہم موضوعات پر دونوں ممالک میں اتفاق رائے پیدا ہوتا ہے تو یوکرین میں جاری جنگ میں مزید شدت آ سکتی ہے اور عالمی معیشت اور امن کو اضافی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

غالب امکان ہے کہ ایران روس کے ساتھ اپنے تعاون میں مزید اضافہ کرے گا۔ روس اور ایران کے درمیان اعلیٰ سطح کے مختلف وفود کی حال ہی میں کافی ملاقاتیں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ایک اہم بین الاقوامی راہداری کا معاہدہ طے پایا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق روس، ایران کی بری اور بحری سہولیات کا استعمال کر سکے گا اور اس طرح مغربی معاشی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کی ناراضگی دور کرنے کے لیے روس باہمی تجارت کو موجودہ چار ارب ڈالر سے بڑھا کر 40 ارب ڈالر تک لانے کا عندیہ دے چکا ہے جس میں ایرانی ٹیکسٹائل مصنوعات اور گاڑیوں کی برآمدات شامل ہوں گی جبکہ روس کی طرف سے اناج اور بھارت کو سامان بھیجنے کے لیے ٹرانزٹ سہولت دی جائے گی۔

پوتن کے دورے کا ایران کے لیے ایک اور اہم رخ بھی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایران مغرب اور امریکہ سے اپنے جوہری معاہدے کی بحالی کے بارے میں یکسر ناامید ہو چکا ہے اور اسے معاشی پابندیاں جلد ختم ہوتے نہیں دکھائی دے رہیں۔ صدر بائیڈن کی حکومت نے اس سلسلے میں زیادہ گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا ہے اور آنے والے والے امریکی وسط المدتی انتخابات، جن میں مخالف رپبلکن پارٹی کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں، اس معاہدے کی بحالی کے امکانات اور بھی کم ہو جائیں گے۔ ان حالات میں ایران پر معاشی پابندیاں ختم ہونے کے امکانات کم از کم اگلے تین سالوں تک نظر نہیں آتے۔

ان بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران نے اب اپنے علاقے میں ہی موجود مغرب مخالف قوتوں سے تعلقات مضبوط کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسی وجہ سے سے چین کے ساتھ 25 سالہ دفاعی اور معاشی معاہدہ کیا گیا ہے۔ روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے ہوئے معاشی اور دفاعی تعلقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی دکھائی دیتے ہیں۔ 

اردوغان بظاہر تہران میں شام سے متعلق کانفرنس میں شرکت کے لیے آرہے ہیں مگر یہ یقینی نظر آ رہا ہے کہ روس اور ترکی کے درمیان بات چیت کا محور یوکرین کی جنگ ہوگی اور اس میں ترکی اور دنیا کو بحیرہ اسود سے اناج کی فراہمی اہم موضوع گفتگو ہو گی۔

امریکہ یقیناً روس اور ایران کے تعلقات میں اس پیش رفت سے فکر مند ہے اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے ایرانی ڈرون طیاروں کے حوالے سے یوکرین میں جاری جنگ کی شدت میں اضافے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔

روسی سفارت کاری سے ایسا لگ رہا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ کا خاتمہ قریب نہیں اور عالمی امن اور معیشت کے لیے یہ اچھی خبر نہیں ہے۔ اس وقت ضروری ہے کہ روس اور امریکہ کو عالمی امن اور معیشت کی بقا کے لیے اس تنازعے کو زیادہ آگے بڑھنے سے روکنا ہوگا۔

اس کے لیے لازم ہے کہ مغربی طاقتیں روس کے لیے واپسی کا کوئی باعزت اور قابل عمل راستہ تلاش کریں جس میں روس کے اپنی سلامتی کے بارے میں خدشات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ