جاپان: وہ ڈھائی سیکنڈ جن کے دوران شینزو آبے کو بچایا جا سکتا تھا

سابق جاپانی وزیراعظم شینزو آبے کے قتل کی فوٹیج کا جائزہ لینے والے آٹھ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر باڈی گارڈز مستعدی سے کام لیتے تو وہ ان کو بچا سکتے تھے۔

سابق جاپانی وزیراعظم شینزو آبے آٹھ جولائی 2022 کو مغربی جاپان کے شہر نارا میں ایک شخص کی طرف سے گولی مارنے سے پہلے تقریر کر رہے ہیں، جس نے ان کی جان لے لی تھی (فائل فوٹو: روئٹرز)

سابق جاپانی وزیراعظم شینزو آبے کے قتل کی فوٹیج کا جائزہ لینے والے آٹھ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ باڈی گارڈز سابق وزیراعظم کو بچا سکتے تھے اگر وہ خطا جانے والی اور لگنے والی گولی کے درمیان ڈھائی سیکنڈ کے وقفے میں انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے یا وہاں سے ہٹا دیتے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جاپانی اور بین الاقوامی ماہرین نے کہا ہے کہ دوسری گولی سے شینزو آبے کو بچانے میں ناکامی کے پیچھے سکیورٹی کی خامیوں کا ایک سلسلہ تھا۔

مغربی شہر نارا میں گھریلو ساختہ ہتھیار استعمال کرنے والے ایک شخص کے ہاتھوں شینزو آبے کے قتل نے جاپان جیسے ملک کو چونکا دیا تھا، جہاں مسلح تشدد بہت کم ہے اور سیاست دان کم سکیورٹی کے ساتھ عوام میں جاکر مہم چلاتے ہیں۔

جاپانی حکام بشمول وزیراعظم فومیو کیشیدا نے سکیورٹی میں کوتاہیوں کا اعتراف کیا جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں۔

سکیورٹی ماہرین کے علاوہ خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بھی جائے وقوعہ پر موجود چھ گواہان سے بات کی اور آن لائن دستیاب مختلف زاویوں سے بنائی گئی متعدد ویڈیوز کا معائنہ کیا تاکہ فائرنگ سے قبل ان کے حفاظتی اقدامات کی تفصیل جمع کی جا سکے۔

فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ایک سڑک پر موجود 67 سالہ شینزو  آبے کے پیچھے کوئی سکیورٹی نہیں تھی، جس کے باعث گولی چلانے والا ہتھیار سمیت ان کے قریب آنے میں کامیاب ہوا۔ پولیس نے گولی چلانے والی کی شناخت 41 سالہ تیتسویا یاماگامی کے نام سے کی ہے۔

گلوبل تھریٹ سولوشنز کے سربراہ کینتھ بمبیس نے کہا کہ ’انہیں چاہیے تھا کہ حملہ آور کو جان بوجھ کر وزیراعظم کے عقب کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر مداخلت کرتے۔‘

گلوبل تھریٹ سولوشنز کمپنی نے امریکی صدر جوبائیڈن کو ان کی صدارتی مہم کے دوران سکیورٹی فراہم کی تھی۔

اخبار یوموری نے تفتیشی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ملزم پہلے گولی چلانے سے قبل شینزو  آبے کے تقریباً سات میٹر (23 فٹ) قریب آگیا تھا، جس کے بعد اس نے تقریباً پانچ میٹر کے فاصلے سے دوسری گولی ماری۔

بحریہ سیل کے سابق اور سی آئی اے افسر جان سولٹیس، جو اب سکیورٹی فرم پرسیگور کے نائب صدر ہیں، نے کہا کہ باڈی گارڈز نے شینزو  آبے کے گرد ’حفاظتی حصار‘ نہیں بنایا ہوا تھا، ’وہ کسی بھی طرح ہجوم کی نگرانی نہیں کر رہے تھے۔‘

ماہرانہ رائے جاننے کے لیے جب روئٹرز نے اس مقام پر شینزو آبے کی سکیورٹی کی انچارج نارا پریفیکچرل پولیس سے پوچھا تو انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’محکمہ ان کی سکیورٹی کے مسائل کی نشاندہی‘ کے لیے پرعزم تھا۔ انہوں نے اس پر مزید تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

ویڈیو فوٹیج سے پتہ چلا ہے کہ پہلی گولی لگنے کے بعد شینزو  آبے مڑ کر اپنے بائیں کندھے پر نظر ڈالتے ہیں۔ دو باڈی گارڈز ان کے اور شوٹر کے درمیان حائل ہونے کے لیے بھاگتے ہیں، ایک باڈی گارڈ پتلا سیاہ بیگ لہراتا ہے۔ دیگر دو حملہ آور کی طرف جاتے ہیں، جو دھوئیں سے گزرتا ہوا مزید قریب آ جاتا ہے۔

نیہون یونیورسٹی سے منسلک اور دہشت گردی اور ہنگامی صورت حال کے ماہر پروفیسر میتسورو فیوکودا نے کہا کہ ’اگرچہ شینزو  آبے کے سکیورٹی گارڈز نے چند لمحوں بعد حملہ آور کو گرفتار کر لیا لیکن سکیورٹی کے لیے یہ ’غلط ردعمل‘ تھا کہ وہ شینزو آبے کی حفاظت کی بجائے گولی چلانے والے کے پیچھے بھاگیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹوکیو کے قریب سائیتاما پریفیکچر کے وی آئی پیز کی سکیورٹی سنبھالنے والے ایک ریٹائرڈ پولیس افسر یاسوہیرو ساساکی نے کہا کہ سکیورٹی بہت تھی لیکن خطرے کا کوئی احساس نہیں تھا۔’ہر کوئی حیران رہ گیا اور کوئی بھی شینزو آبے کے پاس نہیں گیا۔‘

مقامی پولیس فورسز کی نگرانی کرنے والی نیشنل پولیس ایجنسی نے کہا ہے کہ شینزو  آبے کا قتل پولیس کی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔

ایجنسی  نے کہا کہ اس نے سکیورٹی اور تحفظ کے اقدامات کا جائزہ لینے اور اس طرح کے سنگین واقعے کو بار بار ہونے سے روکنے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو ٹھوس اقدامات پر غور کرے گی۔

روئٹرز کے سوالات کے جواب میں کہا گیا: ’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نہ صرف اس موقع پر ردعمل میں مسائل تھے مثلا سکیورٹی اور تحفظ کا بندو بست، اہلکاروں کی تعیناتی اور بنیادی سکیورٹی کا طریقہ کار بلکہ نیشنل پولیس ایجنسی کے طریقہ کار میں بھی مسائل تھے۔‘

روئٹرز ملزم تیتسویا یاماگامی تک رسائی حاصل نہیں کرسکا، جو پولیس کی تحویل میں ہیں اور اس بات کا تعین نہیں ہوسکا کہ آیا انہیں کوئی وکیل میسر ہے یا نہیں۔

’بچایا جا سکتا تھا‘

ٹوکیو میٹروپولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ کی خصوصی ٹیم کے سابق سارجنٹ کوئیچی ایٹو کے مطابق فوٹیج میں اس وقت چار باڈی گارڈز کو دیکھا جاسکتا ہے، جب شینزو آبے بول رہے تھے۔ ان کی تعداد کی تصدیق مقامی سیاست دان ماساہیرو اوکونی نے بھی کی، جو جائے وقوعہ پر موجود تھے۔

جب سابق وزیراعظم بولنے کے لیے آگےبڑھےتو ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آور تیتسویا یاماگامی عقب میں تالیاں بجا رہے تھے۔

فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ جب تیتسویا یاماگامی شینزو  آبے کے پیچھے چلتے ہوئے آئے تو سکیورٹی نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

سینیئر سفارت کاروں اور غیر ملکی مہمانوں کو تحفظ فراہم کرنے والی امریکی سفارتی سکیورٹی سروس کے ایک رکن نے کہا کہ شینزو آبے کے قریب ایک سکیورٹی گارڈ ہونا چاہیے تھا جو ان کو وہاں سے دور لے جاتا۔

ایجنٹ نے کہا: ’ہم انہیں بیلٹ اور کالر سے پکڑتے، خود کو ان کے سامنے ڈھال بنا لیتے اور انہیں دور لے جاتے۔‘

ٹوکیو پولیس کے سابق سپرنٹنڈنٹ جنرل کاتسوہیکو اکیڈا جنہوں نے 2000 اور 2008 میں جاپان کے گروپ آف ایٹ سربراہ اجلاسوں کی سکیورٹی سنبھالی تھی، نے کہا کہ اگر شینزو آبے کی سکیورٹی کے افراد اتنا قریب ہوتے کہ ایک یا دو سیکنڈ میں ان تک پہنچ جائیں، تو صورت حال بہت مختلف ہوتی۔

سابق پولیس سارجنٹ ایٹو نے کہا کہ اگر سکیورٹی اہلکار فعال اور باہمی رابطے میں ہوتے تو وہ پہلی ہی گولی روک سکتے تھے۔

انہوں نے کہا: ’اگر وہ اس(پہلی گولی) کو نہ بھی روک سکتے تو دوسری گولی سے پہلے دو سیکنڈ سے زیادہ  کا وقفہ تھا لہذا وہ یقینی طور پر اس سے تو بچا ہی سکتے تھے۔ اگر شینزو  آبے کی مناسب حفاظت کی جاتی تو انہیں بچایا جا سکتا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا