جاپان: سابق وزیراعظم شینزو آبے قاتلانہ حملے میں ہلاک

مقامی میڈیا کے مطابق جمعے کو ایک انتخابی مہم کے دوران سابق وزیراعظم شینزو آبے فائرنگ میں زخمی ہوئے جس کے بعد ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

جاپان کی حکومت نے تصدیق کی ہے سابق وزیر اعظم شینزو آبے ایک قاتلانہ حملے میں گولی لگنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعے کو نارا علاقے میں ایک انتخابی مہم کے دوران شینزو آبے فائرنگ کے بعد شدید زخمی ہو گئے تھے۔

چیف کابینہ سکریٹری ہیروکازو ماتسونو نے جمعے کو اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا: ’سابق وزیر اعظم آبے کو صبح تقریباً ساڑھے 11 بجے نارا میں گولی سے نشانہ بنایا گیا۔ ایک مشتبہ شخص، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ حملہ آور تھا، کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔‘

اے ایف پی نے قومی نشریاتی ادارے این ایچ کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں پولیس ذرائع نے ادارے کو بتایا کہ 40 سال کے ایک شخص کو شینزو آبے کے قتل کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور اس سے ایک گن ضبط کر لی گئی ہے۔

این ایچ کے اور کیوڈو نیوز ایجنسی نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم اتوار کے ایوان بالا کے انتخابات سے قبل ایک تقریب میں تقریر کر رہے تھے جب بظاہر گولیوں کی آواز سنی گئی۔

جائے وقوعہ پر موجود ایک نوجوان خاتون نے این ایچ کے کو بتایا: ’وہ تقریر کر رہے تھے اور پیچھے سے ایک آدمی آیا۔ پہلی گولی کی آواز کھلونے کی طرح لگی۔ وہ (آبے) گرے نہیں تھے اور دوسری گولی کا دھماکہ شدید تھا آپ چنگاری اور دھواں دیکھ سکتے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’دوسری گولی کے بعد لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور انہیں طبی امداد دینے کی کوشش کی گئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کے ایک ذرائع نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ 67 سالہ آبے فائرنگ کے بعد گر گئے اور ان کی گردن سے خون بہہ رہا تھا۔

این ایچ کے اور کیوڈو نیوز ایجنسی دونوں نے رپورٹ کیا کہ آبے کو ہسپتال لے جایا گیا اور وہ تشویش ناک حالت میں دکھائی دے رہے تھے۔

کئی میڈیا آؤٹ لیٹس نے رپورٹ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ انہیں پیچھے سے گولی ماری گئی ہے اور ممکنہ طور پر شاٹ گن سے۔

حکومت نے کہا کہ اس واقعے کے تناظر میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔

عالمی ردعمل

تھائی لینڈ کے وزیر خارجہ ڈون پرامودوینائی نے بینکاک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا: ’وزیر اعظم پرایوت چن و چا سابق جاپانی وزیراعظم شینزو آبے کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے بہت حیران ہیں۔۔۔ دونوں دوست ہیں اور دونوں کے آپس میں قریبی تعلقات ہیں۔‘

جاپان میں امریکی سفیر ریہم ایمانوئل نے کہا ہے کہ وہ سابق جاپانی وزیرِ اعظم شنزو آبے کی انتخابی مہم کے دوران فائرنگ کے واقعے کے بارے میں سن کر ’اداس اور صدمے‘ میں ہیں۔

ایمانوئل نے ایک بیان میں کہا: ’آبے جاپان کے ایک شاندار رہنما اور امریکہ کے غیر متزلزل اتحادی رہے ہیں۔ امریکی حکومت اور امریکی عوام آبے کی صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی ایک پیغام میں حملے پر تشویش کا اظہار کیا۔ 

بالی میں جی 20 اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بلنکن نے کہا: ’یہ ایک بہت ہی افسوسناک لمحہ ہے۔ امریکہ کو اس واقعے پر سخت غم اور گہری تشویش ہے۔‘

بلنکن نے مزید کہا: ’ہمیں ان (آبے) کی حالت کا علم نہیں ہے۔ ہماری ہمدردی ، ہماری دعائیں ان کے، ان کے خاندان اور جاپان کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔‘

اس موقع پر بلکن کے ساتھ موجود جی 20 اجلاس کی صدارت کرنے والی انڈونیشیا کی وزیر خارجہ ریٹنو مارسودی نے کہا کہ وہ سابق جاپانی وزیر اعظم کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔

انہوں نے کہا: ’مجھے اجلاس سے پہلے یہ کہنا ہے کہ ہم آبے کی زندگی پر حملہ کرنے کی کوشش کے بارے میں آنے والی خبروں سے کتنے زیادہ غمزدہ اور فکر مند ہیں۔ ہماری ہمدردی اور دعائیں ان کے، ان کے خاندان اور جاپان کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔ یہ ایک بہت ہی افسوسناک لمحہ ہے اور ہم جاپان سے آنے والی خبروں کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان زاو لیجیان نے کہا: ’ہم امید کرتے ہیں کہ سابق وزیراعظم آبے خطرے سے باہر ہوں گے اور جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔‘

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انہیں آبے پر بزدلانہ قاتلانہ حملے کا سن کر حیرت اور دکھ ہوا۔

آسٹریلوی وزیراعظم اینتھنی البیس نے بھی ٹویٹ میں کہا کہ وہ آبے، ان کے خاندان اور جاپان کے لوگوں کے لیے دعا گو ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹوئٹر پر کہا: ’میں اپنے دوست آبے شینزو پر حملے کا سن کر صدمے میں ہوں۔ میری دعائیں ان کے ساتھ، ان کے خاندان اور جاپان کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔‘

جاپان کے سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والے آبے نے 2006 میں ایک سال اور پھر 2012 سے 2020 تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے لیکن پھر وہ پیٹ کے مرض کی وجہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔

جاپان میں گنز پر قابو پانے کے لیے دنیا کے سخت ترین قوانین لاگو ہیں اور ساڑھے 12 کروڑ افراد کے ملک میں اسلحے سے ہونے والی سالانہ اموات انتہائی کم ہیں۔

بندوق کا لائسنس حاصل کرنا جاپانی شہریوں کے لیے بھی ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے جنہیں پہلے شوٹنگ ایسوسی ایشن سے منظوری حاصل کرنی ہوتی ہے اور پھر سخت پولیس چیکنگ سے گزرنا ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا