کرنل کا قتل: زیارت آپریشن میں مارے جانے والے کون تھے؟

بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ زیارت میں سکیورٹی آپریشن میں ہلاک ہونے والے شدت پسند تھے لیکن جبری گمشدگی کے خلاف سرگرم کارکنوں کا ماننا ہے کہ ہلاک کیے جانے والے نو میں سے پانچ مسنگ پرسنز تھے۔

23 مئی، 2020 کو کراچی میں سکیورٹی اہلکار ایمبولنس کے لیے راستہ کلیئر کر رہے ہیں (اے ایف پی)

بلوچستان کے ضلع زیارت میں 12 جولائی کو لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کو ان کے چچازاد بھائی سمیت اغوا کیا گیا، جس کی بعد میں ان کی لاشیں ملیں۔

سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کے طور پر علاقے میں آپریشن کرتے ہوئے کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے نو مبینہ اراکین کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

ہلاک ہونے والوں کی لاشیں شناخت کے لیے 17 جولائی کو کوئٹہ سول ہسپتال منتقل کی گئیں۔ ان میں سے پانچ کی شناخت لواحقین نے کر لی۔

تاہم لواحقین نے سوشل میڈیا کے ذریعے اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے 19 جولائی کو جاری اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ یہ پانچ افراد لاپتہ تھے، جن کے کوائف ان کے پاس درج تھے۔

ان میں سے ایک شہزاد بلوچ کے اہل خانہ نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شہزاد کو چار جون، 2022 کو کوئٹہ کے علاقے موسیٰ کالونی سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا۔

اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ شہزاد کے اغوا کا مقدمہ درج کرانے کے لیے انہوں نے متعلقہ تھانوں سے رجوع کیا تاہم رپورٹ درج نہیں کی گئی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا کہ زیارت واقعے میں سکیورٹی فورسز نے جن لوگوں کو مارا وہ پہلے سے لاپتہ تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ لوگ مجرم تھے تو ان کو عدالت کے ذریعے سزا دی جاتی تو انہیں اعتراض نہیں ہوتا۔ ’لیکن ان کو پہلے لاپتہ کر کے زندانوں میں رکھنا اور بعد میں مارنے کا دعویٰ کرنا انسانیت سوز ظلم ہے۔‘

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے اعداد وشمار کے مطابق زیارت آپریشن میں مارے جانے والے شمس ساتکزئی پانچ سال قبل، شہزاد احمد کو چار جون، 2022 ، ظہیرالدین کو سات اکتوبر، 2021 کو ایئرپورٹ روڈ کوئٹہ، ڈاکٹر مختیار کو چار جون کو سریاب روڈ اور سالم ولد کریم بخش، جن کا تعلق پنجگور سے تھا 18 جولائی، 2022 کو کوئٹہ جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے اٹھایا تھا۔

عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے ظہیرالدین کے بھائی کی طرف سے تھانہ زرغون آباد میں واقعے کی کاپی اور اس حوالے سے عدالت میں دائر پٹیشن کو ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے۔

یہ مقدمہ ڈاکٹر بشیر احمد نے درج کروایا جس میں انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی ظہیر الدین کی اغوا کی اطلاع دیتے ہوئے انہیں بازیاب کروانے کی درخواست کی تھی۔

انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ میں عظمیٰ اکبر کے نام سے دائر کی گئی پٹیشن کی کاپی بھی شیئر کی، جس میں ظہیر الدین کو مسنگ پرسنز کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔

پاکستان فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے 16جولائی کو جاری ایک بیان میں بتایا تھا کہ زیارت میں کرنل لئیق کے کزن عمر جاوید کی بازیابی کے لیے آپریشن کے دوران شدت پسندوں کا ٹھکانہ جو خوست اور خلافت پہاڑوں میں تھا کلیئر کردیا گیا۔

بیان کے مطابق اس دوران جب شدت پسندوں کو گھیرا گیا تو انہوں نے فورسز کو دیکھ کر فائرنگ کر دی جس میں ایک حوالدار خان محمد جان سے چلے گئے۔ اس کلیئرنس آپریشن کے دوران کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے ) کے مبینہ پانچ شدت پسندوں کو فائرنگ کے تبادلے میں مار دیا گیا۔

کرنل لئیق کے کزن عمر جاوید کی لاش بھی 16 جولائی کو منگی ڈیم کے علاقے سے برآمد کی گئی۔

دوسری جانب بلوچستان کے مشیر داخلہ ضیا لانگو نے 19 جولائی کی شب کوئٹہ پریس کلب میں زیارت آپریشن سے متعلق ایک پریس کانفرنس کی۔

ضیا لانگو نے کہا کہ 12 جولائی کو لیفٹنننٹ کرنل لئیق اور ان کے کزن عمر کو ان کے خاندان کے سامنے زیارت سے اغوا کیا گیا، جو بلوچی واسلامی روایات کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیویز اور پولیس اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جن کے خاندان اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔

ضیا لانگو نے کہا کہ اس واقعے کے بعد زیارت اور ہرنائی کے پہاڑوں میں بڑا آپریشن کیا گیا، جس دوران کرنل لئیق اور عمر جاوید کی میتیں برآمد کی گئیں۔

اس کارروائی میں حساس ادارے کا ایک اہلکار بھی جان سے گیا۔ آپریشن میں نو شدت پسند مارے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مارے جانے والوں میں سے پانچ کی شناخت ہوگئی ہے۔ ن میں شمس ساتکزئی، انجنیئر ظہیر، شہزاد احمد، بختیار بلوچ اور سلیم کریم بخش شامل ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بی ایل اے نے بھی کرنل لئیق کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

ضیا لانگو نے کہا کہ پاکستان فوج اور ایف سی نے شدت پسندوں کا قلع قمع کرنے کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن کیا جو پانچ دنوں تک جاری رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضیا لانگو نے کہا کہ یہ شدت پسند کافی عرصے سے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل کر زیارت ہرنائی کے  پہاڑی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات مانگی ڈیم، کوئلے کے کانوں اور دیگر حملوں میں ملوث تھے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے ان لوگوں کے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان کا ہمیشہ سے موقف یہی رہا ہے کہ لاپتہ افراد دراصل پہاڑوں میں ریاست کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں، جس کی تصدیق ان کی کارروائیوں سے ہوتی ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پی سی گوادر، کراچی سٹاک ایکسچینج، نوشکی اور پنجگور جیسے واقعات میں بھی یہی لوگ ملوث تھے۔

ضیا لانگو کا مزید کہنا تھا کہ بی ایل اے جیسی دہشت گرد تنظیم کی کارروائیوں سے مقامی لوگوں میں سخت اضطراب پایا جاتاہے۔ ’یہ علاقے کا امن خراب کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ قوم پرست سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں مسنگ پرسن کے نام پر اس واقعہ کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کیا تو وہ بھی ابھی تک نہ ہوسکا۔ 

انہوں نے واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے قتل کے محرکات سامنے لائیں تاکہ دوبارہ ایسے واقعات سامنے نہ آئیں۔

ادھر میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے لاہور میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں وزیراعظم سے زیارت واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دعویٰ کیا گیا کہ وہاں پر ایک مقابلہ ہوا ہے۔

اختر مینگل کا الزام تھا کہ مارے جانے والوں میں پانچ افراد پہلے سے سرکار کی حراست میں تھے۔ ’اس کا ثبوت ہمارے پاس موجود ہے کہ کس آدمی کو کب، کس دن، کہاں سے اٹھایا گیا تھا۔ اور پھر اس کو رپورٹ کیا گیا باقاعدہ اور ان کے لواحقین مسنگ پرسنز کے کیمپ میں بیٹھے ہوئے تھے۔‘

انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ان کے مارے جانے والوں کی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جوڈیشنل انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا۔

 پولیس سرجن سنڈیمن سول ہسپتال کوئٹہ ڈاکٹر عائشہ فیض نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زیارت سے ان کے پاس نو افراد کی لاشیں لائی گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے شناخت شدہ پانچ لاشوں کو ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ چار کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان