لکس سٹائل ایوارڈز: باقی سب تو ٹھیک لیکن وقت کی پابندی کریں

رواں سال فلم ’طیفا ان ٹربل‘ اور ’لوڈ ویڈنگ‘ کے لیے دو، دو ایوارڈز، ’کیک‘ بہترین فلم جبکہ احسن رحیم بہترین ہدایت کار’ قرار پائے۔

10

عاطف اسلم اپنی پرفارمنس کے دوران

پاکستان میں شوبز دنیا میں ایوارڈز کی بات ہو تو اس وقت صرف ایک ہی ایوارڈ ایسا ہے جو فلم، ٹی وی، موسیقی اور فیشن میں گذشتہ 18 سالوں سے مسلسل منعقد ہورہا ہے اور وہ ہے لکس سٹائل ایوارڈز۔

کراچی میں اتوار کی رات 18ویں لکس سٹائل ایوارڈز تقریب منعقد ہوئی جس میں فلم اور ٹی وی کے علاوہ موسیقی اور فیشن کے شعبوں میں بھی اعلیٰ کارکردگی پر اعزازات تقسیم کیے گئے۔

اس سال کے لکس ایوارڈز تو پاکستانی فلمی صنعت کے ایک بہت بڑے نام شبنم کے ہی نام رہے، جنہیں اس سال ان کی خدمات پر انتظامیہ نے ’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘ سے نوازا۔

اداکارہ شبنم کا اصل نام جھرنا باسک ہے۔ انہوں نے 1960 کی دہائی سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا اور 90 کی دہائی کے آخر تک پاکستانی فلموں میں کام کرتی رہیں۔

سابق مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والی شبنم 1990 کی دہائی کے آخر میں بنگلہ دیش منتقل ہوگئیں اور رواں سال انہیں خصوصی طور پر اس ایوارڈ تقریب میں مدعو کر کے ان کی خدمات کے اعتراف میں یہ اعلیٰ ترین اعزاز دیا گیا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ ان کے ساتھ اداکار ندیم بیگ بھی موجود تھے جنھوں نے شبنم کے ساتھ درجنوں فلموں میں بطور ہیرو کام کیا۔

شبنم نے اس موقع پر کہا کہ ان کا دل چاہ رہا ہے کہ وہ ایک بار پھر فلموں میں کام کرنا شروع کر دیں۔

اس موقع پر پاکستانی فلمی صنعت کی نامور ترین ہیروئنز نے شبنم کے مشہور ترین گانوں پر خصوصی رقص پیش کرکے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

سب سے پہلے اداکارہ میرا نے 1977 کی فلم ’آئینہ‘ کے گانے ’وعدہ کرو ساجنا‘ پر رقص کر کے شبنم کو خراج تحسین پیش کیا۔ جس کے بعد اداکارہ مایا علی نے 1971 کی فلم ’دوستی‘ کے گانے ’چِٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘ پر بہت ہی مسحور کن رقص پیش کیا۔

مایا علی کے بعد صبا قمر نے شبنم کی 1972 کی فلم ’من کی جیت‘ کے گانے ’میرا بابو چھیل چھبیلا‘ پر رقص کرکے شبنم جی کی پرانی یادوں کو تازہ کیا، اور سب سے آخر میں گلوکارعاطف اسلم نے 1977 کی فلم ’آئینہ‘ کے گانے ’مجھے دل سے نہ بُھلانا‘ پر بہت ہی جاندار پرفارمنس دی۔ وہ گانے کے دوران شبنم اور ندیم بیگ کو ایک ساتھ سٹیج پر لے آئے جس سے ماضی کی اس مقبول ترین جوڑی کو ایک بار پھر ساتھ دیکھنے کا موقع ملا۔

اگر ایوارڈز کی بات کی جائے تو فلم کے شعبے میں ’طیفا ان ٹربل‘ اور ’لوڈ ویڈنگ‘ دو، دو ایوارڈز کے ساتھ نمایاں رہیں۔

بہترین فلم کا اعزاز تو ’کیک‘ کے نام رہا، جبکہ بہترین ہدایت کار احسن رحیم ’طیفا ان ٹربل‘ کے لیے قرار پائے۔ بہترین گلوکار عاطف اسلم فلم ’پرواز ہے جنون‘ کے گانے ’تھام لو‘ کے لیے قرار پائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدنان سرور کی فلم ’موٹرسائیکل گرل‘ کے لیے سوہائے علی ابڑو نے بہترین اداکارہ (جیوری) کا ایوارڈ اپنے نام کیا، جبکہ نبیل قریشی کی فلم ’لوڈ ویڈنگ‘ کے لیے فہد مصطفٰی کو بہترین اداکار (جیوری) اور اسی فلم کے لیے مہوش حیات کو بہترین اداکارہ (پاپولر چوائس) کا اعزاز ملا۔

یاد رہے گذشتہ برس مہوش حیات کو فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کے لیے ایوارڈ نہ ملنے پر فلمی حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات سامنے آئے تھے کیونکہ ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ نہ صرف ایک کامیاب ترین فلم تھی بلکہ اس فلم میں مہوش حیات کی کارکردگی کو بہت سراہا گیا تھا جس کے بعد اس سال بہترین اداکاروں کے لیے دو الگ کیٹیگریز رکھی گئیں، جیوری اور پاپولر چوائس۔

جبکہ اسی شعبے میں شاید سب سے زیادہ متنازعہ ایوارڈ یعنی بہترین اداکار فلم (پاپولر چوائس) علی ظفر کو ’طیفا ان ٹربل‘ کے لیے ملا۔ اگر چہ علی ظفر خود یہ ایوارڈ وصول کرنے کے لیے موجود نہیں تھے اور ان کی جگہ اس فلم کی ہیروئن مایا علی نے ایوارڈ وصول کیا۔

اگر حالیہ تاریخ میں لکس ایوارڈز کی بات کی جائے تو گلوکارہ میشا شفیع کی جانب سے علی ظفر پر مبینہ جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد پیدا ہونے والے تنازع کو کون بھلا سکتا ہے، جب پاکستان کی کچھ نامور شخصیات نے لکس ایوارڈز کے لیے اپنی نامزدگی یہ کہہ کر واپس لے لی تھی کہ وہ کسی ایسے ایوارڈ شو کا حصہ نہیں بننا پسند کریں گے جس میں ایک مبینہ جنسی ہراسانی کا ملزم بھی نامزد ہو۔

تاہم لکس ایوارڈز کی انتظامیہ نے واضح کیا کہ کسی کو بھی نامزد کرنے کا فیصلہ ایک خودمختار جیوری کرتی ہے اور انتظامیہ اس میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کرتی۔

نامزدگی کے بعد یہ ایوارڈز آن لائن ووٹنگ کے ذریعے مرتب کیے جاتے ہیں اس لیے انتظامیہ کا تو اس میں مؤقف کافی واضح ہے، البتہ ’می ٹو‘ تحریک کی وجہ سے اس میں مسائل پیش آسکتے ہیں۔

تاہم اب علی ظفر کو صرف نامزدگی ہی نہیں ایوارڈ مل چکا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کیا رد عمل آتا ہے کیونکہ صرف نامزدگی کی بنیاد پر ہی معروف ہدایتکار جامی نے تو اپنا لکس ایوارڈ گھر کے باہر رکھ دیا تھا اور ایک کباڑیے کی اسے اٹھاتے ہوئے تصاویر بھی جاری کر دی تھیں۔

ایوارڈز کی شام کا سب سے دلچسپ اور رومانوی لمحہ وہ تھا جب اداکار اور میزبان یاسر حسین نے پورے ہال میں ’سنو چندا‘ کی اقرا عزیز کو شادی کی پیشکش کر دی۔ اس موقع پر اقرا کی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے یہ پیشکش قبول کرلی۔

ویسے یاسر حسین کی جانب سے ایسا کرنا بہت سوں کو حیران کر گیا کیونکہ ان کی شہرت تو ایوارڈ شوز میں متنازعہ جملے بولنے کی ہے جیسے لاہور میں منعقد ہم سٹائل ایوارڈز میں انہوں نے احسن خان کو کہہ دیا تھا کہ ’اتنا خوبصورت چائلڈ مولیسٹر، کاش میں بھی بچہ ہوتا‘ جس کے بعد ان پر شدید تنقید کی گئی اور انہوں نے پھر معافی مانگ لی۔

اگر تقریب کی مجموعی بات کی جائے تو خاص بات یہ تھی کہ اس کا کوئی باقاعدہ میزبان نہیں تھا بلکہ متعدد مرد و خواتین نے مختلف حصوں کی میزبانی کی جن میں بالترتیب فہد مصطفٰی، مایا علی اور شہریار منور، پھر مہوش حیات اور زارا نورعباس، علی سفینہ اور شفاعت اور آخر میں منشا پاشا اور احمد علی اکبر نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔

اپنی میزبانی کے دوران مہوش حیات نے اپنے تمغہ امتیاز پر تنقید کرنے والوں کو پیغام دیا ’اس وقت ضرورت ہے اپنی سوچ کو وسعت دینے کی کہ جس میں میرا گانا بلی اور تمغئہ امتیاز دونوں سما جائیں۔‘

ہمیشہ کی طرح یہ تقریب بھی گھںٹوں کی تاخیر سے شروع ہوئی۔ چار بجے کا ریڈ کارپٹ کہہ کر کوئی آٹھ بجے شروع ہوا اور تقریب کا آغاز ساڑھے نو بجے ہوا جو رات کے تقریباًَ دو بجے ختم ہوئی اور ستم یہ کہ سرمد کھوسٹ کے لکھے گئے جملوں میں سرے سے کوئی جان نہیں تھی۔

کسی ایک بھی جملے پر حاضرین کا شاید ہی ہنسی تو دور کی بات مسکراہٹ بھی نہیں آئی۔ سب سے دلچسپ سکرپٹ یاسر حسین اور صبا قمر کا تھا جس میں انہوں نے فلمی دنیا پر کچھ چٹکلے چھوڑے جو مسکراہٹ بکھرتے گئے مگر یہ سکرپٹ خود یاسر حسین نے لکھا تھا۔

اب آخر میں بقیہ ایوارڈز کی بات ہو تو ٹی وی کے شعبے میں ہم ٹی وی کے ڈرامہ سیریل ’سنو چندا‘ اور ’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘ کو تین تین ایوارڈز ملے جبکہ جیو ٹی وی کے ’خانی‘ کو دو اور اے آر وائی کے ’خود غرض‘ کو ایک ایوارڈ ملا۔

ڈرامہ ’خانی‘ کو بہترین اداکار (پاپولر چوائس) اور بہترین ساؤنڈ ٹریک پر اور مصنف ردا بلال کو ’خود غرض‘ سیریز کے لیے ایوارڈ ملا۔

’سنو چندا‘ کے لیے اقرا عزیز کو بہترین اداکارہ (جیوری اور پاپولر چوائس) کے دونوں ایوارڈ ملے جبکہ بہترین ڈرامے کا اعزاز بھی ’سنو چندا‘ کے حصے میں ہی آیا۔

’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘ کو بہترین اداکار (نعمان اعجاز)، بہترین مصنف (بی گُل) اور بہترین ہدایت کار (کاشف نثار) کے ایوارڈ دیے گئے۔

موسیقی کے شعبے میں سال کے بہترین گانے کا اعزاز خماریاں بینڈ کے حصے میں آیا، یہ پشتون بینڈ ہے اور انہوں نے سٹیج پر اردو کے ساتھ پشتو میں بھی شکریہ ادا کیا۔

سال کے بہترین گلوکار محسن عباس حیدر اور سہیل حیدر قرار پائے جبکہ ابھرتے ہوئے ٹیلنٹ کے لیے گلوکار ساکن کے گانے ساقی ’بے وفا‘ کو چنا گیا۔

اس سال ہیئر، میک اپ اور سٹائلنگ کے لیے نبیلہ کو لکس کی جانب سے ’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘ دیا گیا۔ نبیلہ نے پہلے دس سال مسلسل لکس سٹائل ایوارڈ جیتا تھا اور پھر ہمیشہ کے لیے اپنا نام واپس لے لیا تھا تاکہ نئے ناموں کو بھی آگے آنے کا موقع مل سکے۔

فیشن کے شعبے میں سب سے زیادہ ایوارڈ ہوتے ہیں جس کی فہرست کچھ یوں ہے:

پریٹ فیشن ڈیزائن کے ’چیپٹر2 کھاڈی‘، لگژری فیشن ڈیزائن ’ ثنا سفیناز‘ مردوں کے ملبوسات کے لیے ’ریپبلک‘ عمر فاروق۔

فیشن ڈیزائن شادی بیاہ کے لیے کامیار روکنی اور سال کے بہترین ماڈل شہزاد نور اور صدف کنول جبکہ بہترین فوٹوگرافر، رضوان الحق جبکہ بہترین ہئیر اور میک اپ کے لیے ایوارڈ قاسم لیاقت کے نام ہوا۔

اگر انتظامیہ کچھ وقت کی پابندی کرسکے تو اس طرح کی تقاریب مزید بہتر ہوسکتی ہیں کیونکہ سٹیج پر پرفارم کرنے والے بھی ایک وقت کے بعد تھک جاتے ہیں اور ان کی کارکردگی میں بھی کہیں نہ کہیں فرق آہی جاتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فن