آگ برساتا یورپی آسمان

کہتے ہیں کہ 70 کی دہائی میں صرف ایک دن درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر چلا گیا تھا لیکن چند برسوں سے برطانیہ سمیت بیشتر یورپی ملکوں میں یہ اب معمول بنتا جا رہا ہے۔

17 جولائی 2022 کی اس تصویر میں لندن کے ایک ریلوے سٹیشن پر لگی سکرین پر مسافروں کو آنے والے دنوں میں شدید گرمی سے آگاہ کرنے کا پیغام دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

یہ شاید پہلا موقع ہے جب برطانیہ میں گرمی کی لہر سے بچنے کے لیے حکومت کو اعلیٰ سطح کا ’کوبرا اجلاس‘ بلانا پڑا ہے جو اکثر جنگی حالات کے پیش نظر بلایا جاتا ہے۔

یورپی ملکوں میں چند برسوں سے موسمی حالات میں غیر معمولی تغیر محسوس کیا جا رہا ہے، کبھی پرُتگال میں سیلاب کا ریلا پوری بستی کو بہا کے لے جاتا ہے تو کبھی فرانس کے جنگلوں کو آگ اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

سپین، یونان اور اٹلی سے بھی گرمی کی شدید لہر سے جنگلات اور انسانی جانیں ضائع ہونے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔

فرانس کی سرکار نے موجودہ گرمی کی لہر کو ’مونسٹر آکٹوپس‘ کا نام دیا ہے۔ پیرس کے بغل میں واقع علاقے میں ہزاروں ایکڑ جنگلات آگ سے بھسم ہو چکے ہے جہاں 37 ہزار خاندانوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔

سپین کے کچھ علاقے راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ یونان اور پرتگال میں انسانی جانوں کے ضائع ہونے کی تعداد جمع کی جا رہی ہے۔

ماہرین موسمیات کہتے ہیں کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے یورپ کے معتدل ممالک شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ان شعاعوں کے براہ راست زمین پر پڑنے سے مہلک امراض کا لاحق ہونا یقینی ہے جس میں جلد کا سرطان وغیرہ شامل ہے۔

چند ہفتوں سے برطانیہ کی حکومت اور محکمہ صحت نے ملک کے طول و عرض میں عوام کو باخبر کرنے کی بڑی مہم شروع کی تھی جس میں کہا جا رہا تھا کہ بیشتر حصوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس سے تجاوز کرے گا ایسے حالات میں جسمانی گرمی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے مختلف تدابیر برتنے پر زور دیا جا رہا تھا۔

ہسپتالوں میں عملے کو ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رکھا گیا، سکولوں کو بند اور ملازمین کو گھروں میں رہنے کی تلقین کی گئی، موٹروے پر سفر کرنے سے گریز اور مکانوں کے اوپری منزل سے ہجرت کرنے کے احکامات دیے گئے۔

کہتے ہیں کہ 70 کی دہائی میں صرف ایک دن درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر چلا گیا تھا لیکن چند برسوں سے برطانیہ سمیت بیشتر یورپی ملکوں میں یہ اب معمول بنتا جا رہا ہے جس کے لیے مکانوں کی از سرِنو تعمیر پر توجہ لازمی بن گئی ہے۔

برطانیہ میں عام طور پر گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ 30 ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت رہتا ہے جو ایک یا دو روز میں شدید بارشوں کے بعد نیچے گرتا ہے۔ عوام ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں بلکہ گرمیوں کی چھٹیاں منانے اکثر ملک سے باہر جاتے ہیں۔

دو برس سے کرونا وائرس کی وجہ سے باہر کے ملکوں میں جانا ناممکن بن گیا۔ اس سال جب موسم کی تمازت بڑھنے کی خبریں آنے لگیں تو لاکھوں کی تعداد نے ملک سے باہر جانے کا منصوبہ بنایا تھا۔

ہیتھرو سمیت بیشتر ہوائی اڈوں پر مسافروں کی بھرمار کو سنبھالنے کے لیے ایئر لائینز کے پاس ملازمین ہی نہیں تھے۔ بےشمار فلائیٹس منسوخ کر دی گئیں۔ مسافروں کو واپس اپنے گھروں کا رخ کرنے پر مجبور کیا گیا، اس پر ستم یہ کہ گرمی کی لہر کے باعث سب کو گھروں کے تہہ خانوں میں رہنے کی صلاح دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یورپی ملکوں میں، خاص طور پر برطانیہ میں مکان چھوٹے ہوتے ہیں جو محض سردی کو مد نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں جن میں گرمی پہنچانے کا باقاعدہ انتظام ہوتا ہے۔

بیشتر لوگ ایک بیڈ یا دو بیڈ والے فلیٹوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان فلیٹوں میں گرمی سے بچنے کے لیے ایئر کنڈیشن کا انتظام نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ 40 ڈگری سیلسیئس میں یہ چھوٹے چھوٹے مکان تپتی بھٹی کے مانند لگتے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ گرمی کی لہر سے لندن کے بیشتر مکانوں کی چھتوں سے آگ نمودار ہوئی اور آنا فانا چند گھروں کو راکھ میں تبدیل کر دیا۔

گو شدید گرمی سے بچنے کے لیے گراونڈ فلور میں رہنے کی تلقین کی گئی تھی اور اندازہ لگایا گیا تھا کہ اوپر والے فلیٹوں میں گرمی کی لہر سے پانچ سے دس ہزار افراد کی موت واقع ہو سکتی ہے مگر اوپری منزل پر رہنے والے لاکھوں خاندانوں کو منتقل کرنا آسان نہیں تھا۔

گرمی کی لہر اتنی شدید تھی کہ پہلی بار ڈارٹ فارڈ ٹنل کے آس پاس گھاس میں اچانک آگ نمودار ہوئی، مختلف علاقوں میں بعض مکانات آگ کی ذد میں آ گئے، وینگٹن میں درخت، مکان اور باغات گرمی کی لہر سے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔

لوگوں نے باتھ ٹبوں کو سوئمنگ پول سمجھ کر اس میں دو دن گزارے، موٹروے پر قائم سروس سٹورز خالی اور آگ سے تپ رہے تھے۔

میں نے لندن میں 30 برس کی سکونت میں پہلی بار گرمی کی ایسی تمازت سے بچنے کے لیے ویلز کے جنگلی پہاڑوں سنوڈونیا کا رُخ کیا جہاں 32 ڈگری سیلسیئس میں رہنا مشکل نہیں تھا مگر جب ایک قریبی جنگل سے دھواں نظر آیا تو دل سے ایک ہوک اٹھی۔

میں نے جنگ وجدل اور تنازعات سے دور رہ کر بقیہ زندگی سکون سے رہنے کی آرزو کی تھی لیکن اب گرمی کی تپش سے بچنے کے لیے شاید یہاں سے بھی ہجرت کرنا پڑے گی اور کسے معلوم کہ مستقبل میں سب سے زیادہ پناہ گزین وہ بدقسمت لوگ ہوں گے جو عالمی موسموں کے تغیر و تبدل کے باعث مہاجرین کی شناخت حاصل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

یورپ میں گرمی کی موجودہ لہر میں کمی آ گئی ہے مگر اب برساتی طوفان، سیلاب اور بجلی گرنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

ہمارے لیے دعا کیجیے مگر کبھی نہ سوچنا کہ دنیا کی کوئی جگہ محفوظ ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ