کینسر بیالوجی پر ماسٹرز کرنے والی بلوچستان کی پہلی لڑکی

معصومہ راجپوت جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے کینسر بیالوجی میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔

معصومہ  نے جرمنی سے ہی بائیو کیمسٹری میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی (تصویر بشکریہ معصومہ راجپوت)

معصومہ راجپوت کا تعلق پاکستان کے پسماندہ صوبے بلوچستان سے ہے لیکن اپنی محنت اور انتھک لگن کے باعث وہ دنیا میں 25 ویں نمبر کی حامل ہائیڈل برگ یونیورسٹی، جرمنی سے کینسر بیالوجی میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔

معصومہ کے مطابق ان کی کسی نے رہنمائی نہیں کی بلکہ ان کی لگن نے انہیں منزل کا راستہ دکھایا۔ ’اگر کوئی انسان عزم کرلے اور کچھ حاصل کرنا چاہے تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں معصومہ نے بتایا: ’میرا تعلیمی سفر نارمل تھا لیکن مجھے کچھ کرنے کا جنون تھا۔ میں نے او لیول اور  اے لیول میں زیادہ مضامین کا انتخاب کیا تاکہ میرے پاس آپشن زیادہ ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اے لیول کی تعلیم باقاعدہ کسی سکول سے حاصل نہیں کی بلکہ پرائیویٹ طریقے سے یہ امتحانات پاس کیے۔

معصومہ کے مطابق: ’میں نے او لیول میں بائیو کمیسٹری کو ترجیح دی۔ او لیول میں 8 مضامین ہوتے ہیں، لیکن میں نے 18 مضامین چنے اور ان میں سے 14 میں  اے گریڈ حاصل کیا۔ اسی طرح  اے لیول میں تین مطلوبہ مضامین ہوتے ہیں، لیکن میں نے سات لیے جن میں سے چھ میں میرا  اے گریڈ آیا۔‘

انہوں نے بتایا: ’اس سفر کا آغاز آسان نہیں تھا کیونکہ کسی بھی لڑکی کے لیے یہ فیصلہ مشکل ہوتا ہے۔ جب میں نے یہ فیصلہ کیا تو اس کی مخالفت ہوئی اور خاندان والے کہنے لگے کہ یہ تو لڑکی ہے، یہ سب کیسے کرے گی اور پاکستان سے باہر غیر ملک میں کیسے رہے گی لیکن گھر والوں اور قریبی رشتہ داروں کے حوصلے سے مجھے توانائی ملی۔ میں نے اس سے پہلے کبھی اکیلے سفر نہیں کیا تھا لیکن میں چونکہ کچھ کرنا چاہتی تھی، یہی وجہ تھی کہ میں نے سب کچھ نظرانداز کردیا۔‘

معصومہ راجپوت کے والد درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور معصومہ کے علاوہ ان کی دوسری بہنیں بھی اپنی مرضی کے شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں جبکہ ان کی ایک اور بہن بھی جرمنی میں ہی ہیں۔

بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے سے تعلق رکھنے کے باوجود یہ کیسے ممکن ہوا؟

معصومہ کے بقول ’یہ مشکل تھا کیونکہ کوئٹہ میں اس حوالے سے کونسلنگ کا کوئی ادارہ نہیں اور نہ ہی کسی اور نے یہ شعبہ اپنایا تھا جس سے میں مشورہ کرتی۔ بس خود ہی تلاش کرتی رہی اور اپلائی کرکے منزل کے حصول میں کامیاب رہی۔‘

انہوں نے بتایا: ’اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کی سلیکشن کس کوٹہ سسٹم کے تحت ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ مجھے نہ تو پاکستان اور نہ ہی صوبے کی طرف سے کوئی کوٹہ ملا، کیونکہ بلوچستان میں جو لوگ سو سال سے آباد ہیں ان کو بھی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

ریسرچ اور علاج کیا دونوں ایک چیزیں ہیں؟

اس سوال کے جواب میں معصومہ نے بتایا کہ ’یہ ایک غلط فہمی ہے۔ ریسرچ ایک الگ چیز ہے اور کسی مریض کا علاج کرنا دوسری چیز ہے۔ریسرچ میں آپ کسی بھی مرض کی وجہ تلاش کرتے ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے حل تجویز کرتے ہیں جبکہ ڈاکٹر کا کام ہوتا ہے کہ کسی بھی مریض کا ادویات کے ذریعے علاج کرنا، اس لیے میرا کام ڈاکٹروں والا نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’پہلے میں اپنی تعلیم اور ریسرچ مکمل کرنا چاہتی ہوں۔میں کہیں بھی رہوں اپنے لوگوں کی خدمت کرسکتی ہوں۔ ریسرچ چونکہ ایک وسیع کام ہے اور یہ کسی ایک کا کام نہیں بلکہ ادارہ جاتی کام ہوتا ہے، جس کو حکومت انجام دے سکتی ہے تو اگر حکومت نے ایسا کوئی اقدام اٹھایا تو میں خوشی سے واپس آکر پاکستان میں ریسرچ کرنا چاہوں گی۔‘

 معصومہ کے مطابق وہ کینسر بیالوجی پر ماسٹرز مکمل کرنے کے بعد ریسرچ کرنا چاہتی ہیں، جس کے لیے انہوں نے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں انٹرن شپ حاصل کرلی ہے اور اب وہ سکالرشپ کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’ابھی میں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ میں کس پر ریسرچ کروں گی، لیکن میری دلچسپی کینسر امیونولوجی پر ریسرچ کرنے کی ہے اور ہارورڈ یونیورسٹی میں انٹرن شپ کے دوران میں لیو کومیا (خون کے سرطان) پر ریسرچ کروں گی۔‘

معصومہ کے مطابق: ’کسی بھی لڑکی کے لیے اکیلے رہنا شاید مشکل ہوتا ہے لیکن جب آپ اکیلے ہوتے ہیں تو آپ کا حوصلہ بھی بڑھ جاتا ہے اور آپ بہتر فیصلے کرسکتی ہیں۔ کسی بھی کام کے لیے لگن کے ساتھ ساتھ اس بات کا تعین کرنا چاہیے کہ کیا کرنا ہے، پھر کوئی بھی رکاوٹ آپ کے سامنے نہیں آسکتی اور کامیابی کے دروازے خودبخود آپ کے لیے کھلتے جائیں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل