’ہاتھی‘ نامی بحری جہاز جو پنجاب حکومت کے لیے سفید ہاتھی بن گیا

ہاتھی نامی اس بحری جہاز میں دو انجن لگائے گئے تاکہ دریائے سندھ پر اپ سٹریم میں سفر کرتے وقت اسے دشواری کا سامنا نہ ہو۔

(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

زمانہ قدیم سے دریا سازو سامان کی نقل و حرکت کا اہم ذریعہ چلے آ رہے ہیں اور بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ میں تقسیم کے بعد پاکستان میں دریاؤں اور نہروں کو سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

نمک کی کانوں کی وجہ سے دریائے سندھ پر کالا باغ اور ماڑی شہر میں دریا کے کنارے بڑی بڑی کشتیاں اور بحری جہاز نمک اور دیگر ساز و سامان کی نقل و حرکت کرتے تھے۔

اس وقت کالا باغ ریلوے پل اور جناح بیراج کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا تھا، تاہم مال بردار ریل گاڑیوں اور ہیوی روڈ ٹرانسپورٹ کے بعد دریائی راستوں سے سامان کی نقل و حرکت کم ہوتی چلی گئی۔

سڑک اور ریل کے ذریعے سامان کی ترسیل بہت مہنگی پڑتی تھی جس کے پیش نظر حکومت پنجاب نے 2013 میں دریائی راستے سے ساز و سامان کی ترسیل کا منصوبہ بنایا، اور ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

اس کمپنی نے پاکستان نیوی کے ماہرین کی مدد سے کالا باغ کے نواحی علاقے پکی شاہ مردان سے ضلع اٹک تک دریائی کارگو سروس شروع کرنے کے لیے دریائے سندھ کا سروے کیا۔

اس کام کے لیے کالا باغ سے اٹک تک دریائے سندھ پر جہاں جہاں بڑی چٹانیں موجود تھیں انہیں بلاسٹنگ کر کے جہاز کے راستے سے ہٹایا گیا تاکہ جہاز بہ آسانی سفر سکیں۔

اس مقصد کے لیے داؤد خیل کے قریب بندرگاہ بنانے کے لیے زمین بھی حاصل کر لی گئی۔

ابتدائی مرحلے میں اس کمپنی نے  کارگو جہاز بنانے کا کام شروع کیا اور 11 ماہ کی قلیل مدت میں  ’ہاتھی‘ نامی جہاز تیار  کر لیا گیا۔

یہ 35 میٹر طویل، 5.9 میٹر چوڑا اور 120 ٹن وزنی ہاتھی جہاز 300 ٹن وزنی سامان لے جا سکتا تھا، اور اس جہاز کی تیاری پر چھ کروڑ روپے لاگت آئی۔

پکی شاہ مردان میں دریا کی گہرائی کم ہونے کی وجہ سے اب ایک چھوٹی بندرگاہ کالاباغ میں دریائے سندھ کے کنارے بنائی گئی ہے۔

اس ہاتھی نامی بحری جہاز میں دو انجن لگائے گئے تاکہ  دریائے سندھ پر اپ سٹریم میں سفر کرتے وقت اسے دشواری کا سامنا نہ ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابتدائی طو ر پر  اس کے آزمائشی سفر کے لیے اس میں تین سو ٹن پانی بھر کے کالا باغ سے اٹک تک درائی راستے سے سفر کا آغاز کیا گیا مگر اٹک کے قریب اسے دریائے سندھ کی گہرائی کم ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے یہ رک گیا۔

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے دور حکومت میں یہ پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا جس میں دریائے سندھ پر سیاحوں کے لیے فیری سروس کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ تاہم تاحال فیری سروس کا منصوبہ تو چل رہا ہے مگر کروڑوں روپے خرچ ہونے کے بعد ہاتھی نامی بحری جہاز کالاباغ کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے کھڑا گل سڑ رہا ہے۔

ٹورازم ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بہت جلد اس ہاتھی نامی بحری جہاز پر ہوٹل بنا کر اسے دریائے سندھ کے بیچ لہروں پر کھڑا کیا جائے گا، جہاں سیاح اس جہاز پر بیٹھ کر لطف اندوز ہو سکیں گے اور اسے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی 56کمپنیوں میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا۔ بعد ازاں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان  بزدار نے اسے محکمہ آبپاشی کے حوالے کیا جس کے بعد اب یہ منصوبہ محکمہ سیاحت کے زیر  اہتمام کام کر رہا ہے۔

سی پیک سے 10کلومیٹر اور وفاقی دارالحکومت اسلام آ ٓباد سے 160کلو میٹر کا فاصلہ ہونے کی وجہ سے فیری سروس کا منصوبہ تو کامیاب ہے اور حکومت پاکستان کے لیے آمدن کا ذریعہ بھی بن رہا ہے مگر چھ کروڑ روپے کی خطیر رقم سے بنایا جانے والا ہاتھی جہاز پنجاب حکومت کے لیے سفید ہاتھی بن چکا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا