گروک ڈیم: ٹھیکیدار کے ہاتھوں ہزاروں سال قدیم آثار تباہ

خاران کے رہائشی طاہر وفا کے مطابق ڈیم کی تعمیر دو سال سے جاری ہے، اور مقامی لوگوں نے کام شروع ہونے کے بعد ٹھیکیدار کو بتایا تھا کہ وہ اس ٹیلے کو نقصان نہ پہنچائے، تاہم ایسا نہ ہوا۔

گروک ڈیم کی تعمیر خاران میں جاری ہے اور اس کے قیرب ایک قدیم آثار قدیمہ کا ٹیلہ بھی تھا، جسے بلوچی زبان میں ہرے گوک کہا جاتا ہے، مگر ان وہ وہ جگہ بالکل ہموار رہ گئی ہے (تصاویر: شاکر نصیر)

بلوچستان کے ضلع خاران میں گروک ڈیم کی تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار نے ایک تاریخی ٹیلے کو بلڈوز کرکے تباہ کردیا، جس کے خلاف وفاقی محتسب ریجنل برانچ نے ضلعی انتظامیہ کو کارروائی کرنے اور قریب ہی دوسری سائٹ کو محفوظ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

گروک ڈیم کی تعمیر خاران میں جاری ہے اور اس کے قریب ایک قدیم آثار قدیمہ کا ٹیلہ بھی تھا، جسے بلوچی زبان میں ہرے گوک کہا جاتا ہے۔

خاران کے رہائشی طاہر وفا بتاتے ہیں کہ ڈیم کی تعمیر دو سال سے جاری ہے اور مقامی لوگوں نے کام شروع ہونے کے بعد ٹھیکیدار کو بتایا تھا کہ وہ اس ٹیلے کو نقصان نہ پہنچائے۔ 

انہوں نے کہا: ’اس کے لیے علاقہ مکینوں نے ہر فورم پر آواز بلند کی لیکن پھر ہمیں علم ہوا کہ ٹھیکیدار نے اس جگہ کو مکمل لیول کردیا ہے۔ ہماری تمام کوششیں اور احتجاج رائیگاں گیا۔ یہ قدیم ٹیلہ اب نہیں رہا۔‘

طاہر نے بتایا کہ ڈیم کی تعمیر کا کام کرنے والا ٹھیکیدار اب دوسری سائٹ کے حوالے سے مقامی لوگوں کو کہہ رہا ہے کہ وہ اسے اس کی مٹی اٹھانے کی اجازت دیں اس کے بدلے میں وہ انہیں بلڈوزر کے گھنٹے دے گا۔

وفاقی محتسب کے ریجنل آفس خاران کی طرف سے جاری نوٹس میں کہا گیا کہ سابقہ خاران کی ریاست سندھ تہذیب سمیت دیگر قدیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے، اور یہاں پر گوک اور گروک ڈیم بھی آثار قدیمہ میں شامل ہیں۔

کوئٹہ سے 325 کلومیٹر دور خاران میں واقع یہ آثار قدیمہ چھ سے سات ہزار سال پرانے بتائے جاتے ہیں۔ انہیں برطانوی سیاح ہنری پوٹنگر اور سر مارک اورل سٹین نے دنیا کے سامنے لایا تھا۔

وفاقی محتسب کے ریجنل آفس کے نوٹس میں لکھا ہے کہ اس سائٹ کو حکومت پاکستان نے 1987 میں محفوظ جگہ قرار دیا تھا۔ بلوچستان ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیم نے بھی 21 جون 2021 کو ایک خط ڈپٹی کمشنر خاران کو بھیجا تھا، جس میں اسے ہرگوک کی سائٹ کی حفاظت اور تحفظ کے لیے کہا گیا تھا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ ضلعی انتظامیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا اور حالیہ دنوں میں ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم نے خاران میں قدیم آثار کے حوالے سے ایک سروے کیا ہے، جس میں معلوم ہوا کہ ہرگوک کی سائٹ کو مکمل بلڈوز کرکے تباہ کردیا گیا ہے اور اس جگہ کی مٹی کو گاڑیوں میں ڈال کر ڈیم کی تعمیر کے لیے استعمال کیا گیا۔ 

نوٹس میں مزید کہا گیا کہ نوادرات چوری کرنے والے ملزمان اب ہر گوک کے قریب ایک اور قدیم جگہ کے درپے ہیں، جو آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نوٹس کے مطابق اس جگہ کو فوری طور پر ان خفیہ کھدائی کے ذریعے نوادرات نکالنے والوں سے تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔

مزید لکھا گیا کہ ضلعی انتظامیہ کی غفلت نے پیشگی اطلاع کے باوجود تاریخ اور علاقے کی شناخت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

’یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جو سنجیدہ طریقے سے اس حوالے سے ملزمان کےخلاف ایکشن لے، جو طریقہ کار بلوچستان انٹیک ایکٹ 2014 میں دیا گیا ہے۔‘

نوٹس میں مزید کہا گیا کہ ضلعی انتظامیہ خاران، واشک، چاغی اور نوشکی کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں آثار قدیمہ کو تحفظ دیں اور خصوصی طور پر گروک ڈیم کی سائٹ کو محفوظ بنا کر قدیم شناخت کو بچایا جائے۔  

ہرگوک سائٹ کی اہمیت 

بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی کے چیئرپرسن اور ماہر آثار قدیمہ شاکر نصیر نے بتایا کہ ہر گوک سائٹ کا تعلق مہرگڑھ کے تیسرے دور سے ہے، جس کی بہت اہمیت ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس آثارِ  قدیمہ کو سب سے پہلے 1810 میں انگریز سیاح ہنری پوٹنگر نے دیکھا تھا، جبکہ اس پر باقاعدہ سروے کا کام 1927 میں یورل سٹین نے کیا۔ سروے 1931 میں شائع ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پاکستان کے ماہرین کی ایک ٹیم نے 1987 میں اس جگہ کا معائنہ کرکے دیگر 27 سائٹس کی طرح قومی ورثہ قرار دیا تھا، جبکہ 2019 میں بلوچستان حکومت نے بھی اس کو ورثہ قرار دیا تھا۔

شاکر کے بقول: ’بدقسمتی سے خاران کے گروک ڈیم پر کام کرنے والے ٹھیکدار نے نہ صرف اس جگہ کو بلڈوز کرکے مکمل تباہ کردیا بلکہ یہاں سے ملنے والے نوادرات کو بھی فروخت کردیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم نے حالیہ دنوں میں اپنی مدد آپ کے تحت علاقےکا ایک سروے کیا تھا، جس میں ہم نے آثار قدیمہ کی سائٹس کا ڈیٹا جمع کرنا تھا۔

’ہم نے دیکھا کہ مذکورہ سائٹ کو مکمل تباہ کرکے اس میں ملنے والے نوادرات کو بھی فروخت کر دیا گیا ہے، جو ہماری تاریخ اور قدیم شناخت کے حوالے سے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔‘

انہوں نے کہا:’اب مذکورہ ٹھیکیدار ہر گوک ڈیم کے قریب ایک سائٹ جسے گروک دمب (بلوچی زبان میں آثار قدیمہ کا لفظ) کہتے ہیں، اس کو بھی لوٹنے اور تباہ کرنے کے درپے ہے۔‘

ہرگوک کی اہمیت اور نام کی وجہ تسمیہ

ماہر آثار قدیمہ شاکر نصیر نے بتایا کہ یہ جگہ کوئٹہ کے  کلی گل محمد، کیچی بیگ اور کوئٹہ کلچر سے تعلق رکھتی تھی اور خاران کسی زمانے میں مشرق اور مغرب کے لیے گزرگاہ کا کام کرتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس کو ہر گوک اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ 25 سے 30 فٹ اونچے مٹی کے ٹیلے تھے، جو رات کے وقت گدھے اور بیل کی طرح نظر آتے تھے۔ اس لیے مقامی لوگ ان کو ہر یعنی گدھا اور گوک یعنی بیل کی طرح کہتے تھے۔

شاکر نصیر نے بتایا کہ ہمارے مشاہدے میں آیا کہ کچھ ایسے کلچر مرچنٹ ہیں جو اس سے قبل بلوچستان کے پشتون علاقے ژوب میں آثار قدیمہ کی غیر قانونی کھدائی اور نوادرات لوٹنے میں ملوث رہے ہیں، اور اب انہوں نے اس علاقے کا رخ کر لیا ہے۔

ان کامزید کہنا تھا کہ ڈیم کے قریب اس سائٹ کو باقاعدہ منصوبے کے تحت تباہ کیا گیا، جس کی اطلاع محکمہ آرکائیو اور میوزیم نے گذشتہ سال ہی دے دی تھی۔

شاکر نصیر نے بتایا کہ آثار قدیمہ ایکٹ کے تحت ایسی کسی جگہ کو نقصان پہنچانے پر تین سال تک قید اور جتنا سامان وہاں سے نکال کر فروخت کیا گیا اس کی مالیت کے مطابق جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ کوئی ٹھکیدار ہے تو اس کا لائسنس منسوخ کرکے بلیک لسٹ کیا جاسکتا ہے۔

کوئٹہ کی کلی گل محمد سائٹ 

ماہر آثار قدیمہ اور مختلف کتابوں کے مصنف رضا بلوچ اپنی کتاب ’بلوچستان: قدیم تہذیبوں کا سنگم‘ میں لکھتے ہیں کہ کوئٹہ کی شمال کی جانب چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کلی گل محمد میں قدیم تہذیبی آثار کی باقیات ایک ٹیلے کی شکل میں ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ ماہرین آثار قدیمہ نے اس کا زمانہ تقریباً پانچ ہزار سال قبل مسیح ظاہر کیا ہے۔ اس کی قدیم ترین آبادی میں زراعت پیشہ لوگ تھے، جو مویشی پالتے تھے اور تھوبے کی بنی دیواروں پر گھاس پھوس پر چٹائی کی جھونپڑیاں بنا کر رہتے تھے۔

رضا بلوچ لکھتے ہیں کہ کوئٹہ کی  قدیم طرز تعمیر کے بغور جائزے اور تفصیلی مطالعے سے یہ بات مزید واضح ہوتی ہے کہ ماضی کی طرح آج 21ویں صدی میں بھی بلوچستان کے گاؤں بلکہ اکثر شہروں میں اسی طرز تعمیر کو اپنایا گیا ہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ یہی انداز قدیم دور میں کلی گل محمد اور کیچی بیگ میں ہوا کرتا تھا۔ اس دور کے لوگ نیم خانہ بدوشی سے زیادہ قیام پسند ہوگئے تھے۔ ان میں تیسرے مرحلے میں لوگ ہاتھ سے برتن بناتے  تھے اور کمہار کی چاک سے واقف ہوئے۔

رضا بلوچ اپنی کتاب میں مزید وضاحت کرتے ہیں کہ جب انہوں نے چاک سے واقفیت حاصل کی تو برتنوں کو اس سے بنانا شروع کیا۔

کتاب کے مطابق تہذیب کے چوتھے مرحلے میں کیچی بیگ ثقافت نظر آئی جو کلی گل محمد کا تسلسل تھا۔  اس دور میں تانبے کے اوزار نمودار ہوئے، جن کا آغاز کلی گل محمد سے ظاہر ہوتا ہے۔ کلی گل محمد کا زمانہ پانچ ہزار سال قبل مسیح اور اختتام ہزار سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔

وفاقی محتسب کے نوٹس کے باوجود جب ہم نے ضلعی انتظامیہ کے حکام اسسٹنٹ کمشنر خاران امتیاز سے رابطہ کیا تو انہوں نے کسی پیش رفت کے بارے میں نہیں بتایا۔

تاہم نائب تحصیلدار خاران داد محمد نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر رسالدار کو علاقے کا معائنہ کرنے اور رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تاہم ابھی تک مذکورہ ٹھیکیدار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

ادھر دوسری جانب محکمہ آرکائیوز اور میوزیم بلوچستان کے حکام نے خاران کے آثار قدیمہ کو تباہ کرنے پرگروک ڈیم پر کام کرنےوالے ٹھیکیدار کےخلاف عدالت سے رجوع کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ اس جرم کی اسے سزا مل سکے اور آئندہ  کوئی دوسرا اس طرح کا عمل نہ کرے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان