خیبرپختونخوا کے شہر مردان سے تقریباً 20 کلومیٹرکی مسافت پر شمال کی جانب علاقہ تخت بھائی بدھ مت کے آثار کے لیے پوری دینا میں شہرت رکھتا ہے۔
گذشتہ دنوں تخت بھائی کے جنوب مشرق کی طرف یونین کونسل پٹ بابا کے گاؤں کامران میں واقع لوکاٹ کے باغ کے ساتھ نالے کی کھدائی کے دوران ملنے والا بدھ کا مجسمہ ٹھیکے دار کے مزدوروں نے توڑ دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد محکمہ آثارقدیمہ خیبرپختوخوا نے علاقے میں مزید کھدائی کا فیصلہ کیا اور یہاں پر محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا ہے۔ تخت بھائی کے مختلف دیہات میں بدھ مت کے آثار موجود ہیں اور اکثر اوقات مکان بناتے ہوئے یا دوسرے تعمیراتی کاموں کے دوران بدھ مت کے آثار ملتے ہیں۔
جن دیہات میں یہ آثار مل چکے ہیں ان میں سری بہلول، سازودین، کامران، ،سلیم خان، گل پورڈھیری، یوسف باچا ڈھیری، ڈمامو ڈھیری، سلاری کلے، سلیمان ڈھیری، ہندوکلے، چوہاڈھیری اور بعض دوسرے علاقے شامل ہیں۔ گردنواح کے کھیتوں میں بھی بدھ مت کےآثار پائے جاتے ہیں۔
ڈائریکٹر آرکیالوجی میوزیم خیبرپختونخوا ڈاکٹرعبدالصمد نے علاقے کے دورے کے دوران انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ مردان کی تحصیل تخت بھائی کی تاریخی لحاظ سے پوری دنیا میں بہت اہمیت ہے۔'یہ تحصیل آج سے دوہزار سال پہلے بدھ مت کا مرکز رہ چکی ہے جب کہ گندھارا تہذیب کا دارالحکومت بھی تخت بھائی تھا۔ یہاں پر بڑی بڑی سائٹس اور سٹوپہ موجود ہیں۔ آج سے دوہزار سال پہلے پوری دنیا سے بدھ مت کے ماننے والے یہاں آتے تھے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ تخت بھائی عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے، دنیا میں سات کے قریب عالمی ثقافتی ورثے میں شامل مقامات ہیں جن میں دو خیبرپختونخوا کے دوسرے علاقوں اور دونوں تحصیل تحت بھائی میں ہیں۔ 'تحصیل تخت بھائی کا ایک علاقہ وہ ہے جہاں بدھ کا مجسمہ ملا جسے توڑ دیا گیا جب کہ دوسرا علاقہ سری بہلول ہے جہاں بدھ مت پیروکاروں کی رہائش تھی جب کہ وہ تخت بھائی میں عبادت کیا کرتے تھے۔'
جب ڈائریکٹر آثارقدیمہ سے سوال کیا گیا کہ یہاں پرتعمیراتی کام کے دوران اکثر آثار قدیمہ ملتے ہیں تو محکمہ اس علاقے کے حوالے سے کیا منصوبہ رکھتا ہے؟ اس پر انہوں نے جواب میں کہا کہ اس علاقے کے ہر گاؤں اور گلی محلے میں آثار قدیمہ موجود ہیں۔ اب جس علاقے سے بدھ کا مجسمہ ملا ہے اس میں مزید آثار قدیمہ نظرنہیں آرہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی قانون کے مطابق پاکستان میں بھی انٹکویٹی ایکٹ 2016 موجود ہے، جس کے تحت جس بھی مکان یا دوسرے تعمیراتی کام کے لیے کھدائی کے دوران یا کسی کھیت میں آثارقدیمہ یا تاریخی نوادرات ملیں تو ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ سات دن کے اندرضلعی انتظامیہ یا محکمہ آثارقدیمہ کے اہلکارکو اطلاع دے اور اگرکسی نے اطلاع نہیں دی تو قانوناً جرم تصورہوگا جس پر قید کی سزا یا جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدھ کا مجسمہ توڑنے کے واقعے کی سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوئی تو ہمیں بھی پتہ لگا اور ایک دو گھنٹے میں جگہ کا پتہ چلا تے ہوئے ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے محکمےکے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ملوث لوگوں کو پکڑکر مقدمہ درج کرلیا۔
ڈاکٹرصمد نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ یہ کسی مولوی صاحب نے مجسمے کو توڑنے کے لیےکہا تھا، گاؤں کے لوگوں کو بھی پتہ نہیں تھا، ویڈیو میں صرف چار لوگ نظر آ رہے ہیں جنہوں نے باہمی مشورے کے بعد مجسمہ توڑنے کا فیصلہ کیا۔ 'یہ عمل مکمل طور پرلاعلمی اورغفلت کا نتیجہ تھا۔ ہماری کوشش ہے کہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔'
کیا اس علاقے میں محکمہ آثارقدیمہ کا مزید کھدائی کا منصوبہ ہے؟
ڈاکٹرعبدالصمد نے بتایا کہ انہوں نے اس کے لیے باقاعدہ اجازت لے رکھی ہے اور اگلے دو،تین دن میں اس علاقے میں کھدائی کی جائے گی اور آرکیالوجیکل ٹیسٹنگ بھی ہوگی کہ یہاں کس طرح کے آثار قدیمہ موجود ہیں۔
'ہمارے محکمے یا حکومت کے پاس ایسے وسائل یا سیٹلائٹ موجود نہیں جن کی مدد سے ہمیں پتہ چلے کہ کہاں پر غیرقانونی کھدائی ہورہی ہے۔ ہمیں تو میڈیا، ضلعی انتطامیہ یا مقامی لوگوں کے ذریعے پتہ چلتا ہے۔
A statue of Buddha was discovered in a construction site in Takhtbhai, Mardan, & then smashed into pieces by locals. pic.twitter.com/InikUGZkqb
— Prem Rathi (@PremRathee) July 18, 2020
'جو افسوس ناک واقعہ رونما ہواہے اس سے ہمارے معاشرے اور مذہب عالمی سطح پر بدنامی ہوئی ہے۔ یہ واقعہ خاص کر اس وقت پر ہوا جب صوبائی اور مرکزی حکومت ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔'
اس سوال پر کہ کیا سری بہلول، جو عالمی ثقافتی مقام ہے، میں لوگوں کے گھر آباد ہیں تو کیا وہاں سے لوگوں کو نکالنے کا کوئی منصوبہ ہے؟ ڈاکٹر صمد نے اس پر جواب دیا کہ یہاں پر لوگ انگریزوں کے وقت سے آباد ہیں، ہم لوگوں کو تکلیف نہیں دینا چاہتے اور نہ ہی کوئی مسئلہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ حکومت کا منصوبہ ہے کہ متبادل زمین کا بندوبست کرکے آبادی کو وہاں منتقل کر دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبے میں اب تک آثار قدیمہ کے چھ ہزار مقامات دریافت ہو چکے ہیں لیکن محکمہ آثارقدیمہ محدود وسائل کی وجہ سے تمام مقامات کی چوکیداری نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کے تعاون کے بغیر ان مقامات کا تحفظ ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ توڑا گیا مجسمہ مرد بدھ کا تھا، مزید تحقیق کے لیے کھدائی کی جائے گی تاکہ پتہ لگ سکے کہ مجسمہ پہلے سےیہاں دفن تھا کہ کہیں اورسے لا کردفنایا گیا تھا۔
موضع کامران کے رہائشی مراد نے انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا کہ یہ واقعہ برساتی نالے کی تعمیرکے وقت ہوا، جسے تقریباً 25 دن ہوچکے ہیں، مجسمہ توڑنے کے عمل کو چھپایا گیا لیکن ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے سب کو پتہ چل گیا۔ ان کے مطابق اس علاقے میں مجسمے ملتے رہتے ہیں۔
ایک اور مقامی رہائشی حیات خان نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے والے مزدور کو مجسمے کے حوالے سے زیادہ سمجھ بوجھ تھی جب کہ ٹھیکے دار ایک مذہبی بندہ تھا جنہوں نے مجسمہ توڑنے کے لیےکہا اور ساتھ ہی ویڈیو بھی بنا لی، جسے چند دن بعد فیس بک پر پوسٹ کر دیا گیا۔
آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار محمدی گل نے، جو سری بہلول کا رہائشی ہیں، بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے بھی کامران گاؤں میں ایک دو گھروں کے اندرکھدائی کے دوران مجسمے نکلےتھے۔
مقامی رہائشی محمد ایاز نے اندپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'ہمارے علاقے کے بزرگ بتاتے ہیں کہ انہیں مجسموں کی اہمیت کا پتہ نہیں تھا،مجسمے ملنے کی صورت میں انہیں ستونوں کےساتھ رکھ دیا جاتا تھا جبکہ لمبے مجسمے نالوں کے اوپرپیدل چلنے کے لیے پلوں کے طور بھی استعمال کے جاتے تھے۔'
تحصیل تخت بھائی کی اسسٹنٹ کمشنر انیلہ فہیم نے کہا 'ہمیں سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پتہ چلا کہ کسی نے بدھ مجسمہ توڑا ہے۔ ہم نے پولیس کے ساتھ رابطہ کیا لیکن جب لوگ پکڑے گئے تو پتہ چلا کہ مجسمے کے ٹکڑے ہو چکےتھے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ اس طرح کا کوئی تاریخی آثار ملے تو انتظامیہ، محکمہ آثارقدیمہ یا پولیس کو اطلاع دیا کریں تاکہ اسے محفوظ کیا جاسکے۔
جب اسسٹنٹ کمشنر سے سوال کیا گیا کہ آثار قدیمہ ملنے کی صورت میں متعلقہ علاقوں کوکس طرح محفوظ بنایا جاتا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ اس حوالے سے مصروف رہتی ہے، تخت بھائی ثقافتی ورثے کا بہت بڑا علاقہ ہے، جہاں کہیں آثار قدیمہ ملتے ہیں اس مقام کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
' پورے علاقے کی کھدائی ممکن نہیں کیونکہ آبادی اور فصلوں کو ایک دم ہٹانا ممکن نہیں، تاہم علاقے کے مرکزی ثقافتی ورثے کا مقام مکمل طور پر محفوظ بنا دیا گیا ہے اور یہاں 30 فیصد کھدائی ہو چکی ہے۔'
انیلہ فہیم نے کہا مجسمہ توڑنے کے واقعے سے غلط تاثر گیا۔'ہمارا مذہب تحمل اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ ایک یا دو لوگوں کے غلط کام پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام میں دوسرے مذاہب کا احترام نہیں کیا جاتا۔ ملک میں آثار قدیمہ کی حفاظت کے قانون موجود ہے جس کا احترام کرنا ہوگا۔'
تھانہ ساڑوشاہ کے تفتیشی افسرجمشید خان نے بتایا کہ مجسمہ توڑنے والے ملزموں نے اپنے بیان میں کہاکہ چند دن قبل وہ جمال خان کے باغ میں برساتی پانی کی نکاسی کے لیے نالہ کھود رہے تھے، اس دوران انہیں یہ مجسمہ ملا جس کو انہوں نے دیوار کو سیدھا کرنے کی غرض سے توڑا اور اپنا کام مکمل کیا۔
تعمیراتی کام کے ٹھیکے دار نے بیان میں بتایا کہ انہیں پتہ نہیں تھا کہ مجسمہ توڑنا بڑا جرم ہے۔' ہم نے جگہ خالی کرنے کی غرض سے اسے توڑا تاکہ برساتی نالے کی دیوار کو سیدھا کیا جا سکے۔' تفتیشی افسر نے بتایا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے مزید تفتیش کے لیے ملزموں کو پولیس کے حوالے نہیں کیا بلکہ انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر مردان سینٹرل جیل بھیج دیا گیا ہے۔