ایمن الظواہری کی آمد، قیام سے متعلق کوئی معلومات نہیں: افغان طالبان

قطر کے دارالحکومت دوحہ سے بیان جاری کرتے ہوئے طالبان نے امریکہ کو افغان سرزمین پر دوبارہ حملہ کرنے کے نتائج کے بارے میں بھی خبردار کیا۔

افغان طالبان کے مذاکرات کار سہیل شاہین نو جولائی 2021 کو ماسکو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ (فوٹو اے ایف پی)

افغانستان کے طالبان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کے پاس القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی کابل میں ’آمد اور قیام‘ کے بارے میں معلومات نہیں تھیں۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ سے بیان جاری کرتے ہوئے طالبان نے امریکہ کو افغان سرزمین پر دوبارہ حملہ کرنے کے نتائج کے بارے میں بھی خبردار کیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے دو اگست کو اعلان کیا تھا کہ امریکہ نے کابل میں ڈرون حملے کے دوران القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو نشانہ بنایا۔ امریکی انتظامیہ کے بقول یہ حملہ اتوار، 31 جولائی کو کیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے افغان طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ کے لیے نامزد سفیر سہیل شاہین، جو آج کل قطری دارالحکومت دوحہ میں ہیں، نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی دعوے کی ’صداقت کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں جن کے نتائج کو منظر عام پر لایا جائے گا۔‘

2011 میں اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے بعد، افغانستان میں ڈاکٹر ایمن الظواہری کی موت کو القاعدہ کے لیے سب سے بڑا دھچکا مانا جا رہا ہے۔

مجموعی طور پر طالبان قائدین تاحال اتوار کے حملے کے بارے میں خاموش رہے ہیں اور انہوں نے ڈاکٹر الظواہری کی موجودگی یا موت کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں کی۔ تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دو محرم 1444 ہجری کو کابل میں ایک رہائشی مکان پر فضائی حملہ ہوا۔ امارت اسلامیہ کی قیادت نے اپنے تفتیشی اور انٹیلی جنس اداروں کو ہدایت کر دی ہے کہ واقعے کی ہر پہلو سے تحقیقات کی جائیں۔‘

یہ تحقیقات کب تک مکمل ہوں گی، اس بارے میں طالبان کے بیان میں کچھ نہیں بتایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تازہ بیان سے ڈاکٹر ایمن الظواہری کی موت کی تصدیق یا تردید کی کوشش تو نہیں کی گئی لیکن بظاہر اپنے موقف کی وضاحت کی گئی ہے۔ کئی تجزیہ نگار طالبان کے موقف سے متفق دکھائی نہیں دیتے کہ ان جیسی عسکری قوت کو ڈاکٹر ایمن الظواہری کی موجودگی کے بارے میں کوئی علم نہیں ہو گا۔

افغان طالبان نے ایک مرتبہ پھر دنیا، خصوصاً امریکہ کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ ’افغانستان کی سرزمین سے امریکہ سمیت کسی ملک کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ امارت اسلامیہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد یقینی کروانا چاہتی ہے اور معاہدے کی خلاف ورزی کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔‘

امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے ’ہماری سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی ہے جو تمام بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی اور ظلم ہے جس کی ہم ایک بار پھر شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔‘

بیان کے آخر میں طالبان نے واضح کیا کہ ’افغانستان کی سرزمین پر مداخلت کے واقعات دوہرائے جانے کی صورت میں سامنے آنے والے نتائج کی ذمہ داری امریکہ پر ہو گی۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا