پیمرا کی پابندی: اے آر وائی نیوز کی ’بحالی‘ اور ’فتنہ‘ قرار دینے کی جنگ

پیمرا نے نجی نیوز چینل اے آر وائی کی نشریات گذشتہ رات بند کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد چینل کے حق میں اور مخالفت میں ٹویٹس کا سلسلہ جاری ہے۔

21 اکتوبر 2014 کو ایک صحافی اسلام آباد میں اے آر وائی نیوز چینل کو بند کیے جانے پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے خلاف احتجاج میں شریک ہے۔ پیمرا نے پیر کی رات بھی اے آر وائی نیوز پر پابندی کا اعلان کیا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی نیوز چینل اے آر وائی کی نشریات پیر (آٹھ اگست) کی رات سے بند کرنے کا اعلان کیا، جس پر ملک کی سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل سمیت نامور شخصیات اور سوشل میڈیا صارفین اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ اے آر وائی کی نشریات پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے مبینہ طور پر ملکی اداروں کے خلاف دیے گئے ایک بیان کو آن ایئر کرنے کے بعد بند کی گئیں۔

سوشل میڈیا پر  اس حوالے سے ’اے آر وائی کو بحال کرو‘ (#RestoreARYNews) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ چینل کی بحالی کا مطالبہ کیا جارہا ہے، وہیں دوسری جانب کچھ لوگ ’فتنہ چینل اے آر وائی‘ (#FitnaChannelARY) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ چینل کے خلاف بھی ٹویٹس کر رہے ہیں۔

اے آر وائی سے منسلک صحافی کاشف عباسی نے ٹویٹ کیا: ’پورے ملک میں اے آر وائی کو کیبل نیٹ ورک سے ہـٹا دیا گیا ہے۔ پھر وہی پرانا طریقہ۔چینل بند کرو۔ جاگ جائیں۔ یہ 21 ویں صدی ہے۔‘

اے آر وائی کے سینیئر ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ عماد یوسف نے بھی اپنی ٹویٹ میں چینل کی بندش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اے آر وائی پر ’قابل اعتراض، نفرت انگیز، فتنہ انگیز، غلط معلومات پر مبنی، قومی سلامتی کے لیے واضح اور موجودہ خطرے کے ساتھ ساتھ حکومت اور افواج کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کے لیے مسلح افواج کے اندر بغاوت کو ہوا دینے‘ کا الزام لگایا گیا ہے۔

چینل کے سی ای او سلمان اقبال نے بھی اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا ہے۔

سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے صحافی ارشد شریف کی ایک ویڈیو اس عنوان کے ساتھ شیئر کی گئی: ’امپورٹڈ حکومت کے میڈیا سیل کو آج ارشد شریف نے بے نقاب کر دیا، جس کے بعد انہوں نے اے آر وائی کو ائیر آف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’اے آر وائی کو بحال کرو‘ قوم کی آواز ہے!‘

جیو نیوز سے منسلک صحافی مظہر عباس نے بھی اے آر وائی پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اصول و ضوابط پر عمل کیے بغیر پیمرا کی جانب سے  اے آر وائی کی ٹرانسمیشن معطل کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ اگر چینل کے خلاف کوئی شکایت تھی تو مزید کارروائی سے پہلے اسے کونسل آف کمپلینٹ کو بھیجا جانا چاہیے تھا۔ اس پابندی کو ختم کیا جائے۔

اسی طرح صحافی مبشر زیدی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو پوسٹ کی اور لکھا: ’اے آر وائی کو اس لیے بند کیا گیا اور یہ خبر نہیں پروپیگنڈا ہے۔‘

دوسری جانب مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اس سلسلے میں کی گئی صحافی سید طلعت حسین اور غریدہ فاروقی کی ٹویٹس کو ری ٹویٹ کیا ہے۔

غرید فاروقی نے کسی کو ٹیگ کیے بغیر ٹوئٹر پر لکھا تھا: ’یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اے آر وائی نے ایسی منفی اور قابل مذمت مہم چلائی ہو۔ میڈیا ادارے کی آڑ میں ملک مخالف اور صحافتی اصولوں کو پامال کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔ جو مہم اے آر وائی نے آج چلائی ہے اور جس طرح طویل عرصے سے ملک مخالف غیرقانونی عمل میں مصروف ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ قانون حرکت میں آئے۔‘

کچھ صارفین پیمرا کو سراہتے ہوئے نظر آئے۔

عائشہ رفیق نامی صارف نے اے آر وائی پر پابندی کو پیمرا اور حکومت پاکستان کا ’اچھا قدم‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’نفرت پر مبنی بیانات کو اب ختم ہونا چاہیے۔‘

صارف زین داؤد نے بھی ٹوئٹر پر اے آر وائی نیوز کی بندش کو پیمرا کا ’اچھا قدم‘ قرار دیا۔

اسی طرح انوشہ اشفاق نامی ایک صارف نے اے آ وائی نیوز کو بند کیے جانے پر پیمرا کا شکریہ ادا کر ڈالا۔

گذشتہ رات سے لے کر یہ خبر فائل کیے جانے تک اے آر وائی اور پیمرا سے متعلق پونے پونے لاکھ کے قریب ٹویٹس کی جاچکی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل