آج ہم، کل تمہاری باری ہے

آج صحافیوں کے درجنوں گروہ ہیں، ڈھیروں یونینز ہیں، سینکڑوں کے حساب سے رجسٹرڈ صحافی ہیں لیکن عجیب معاملہ درپیش ہے کہ مذمت کریں تو کس کی، مرمت کریں تو کس کی؟

اسلام آباد میں صحافی تین مئی 2020 کو آزادی صحافت کا عالمی دن منا رہے ہیں اور اس موقعے پر اپنے مطالبات کے حق میں بینرز اور پوسٹرز تھامے احتجاج کر رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

 

زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ 27 مئی 2011 کو اسلام آباد کے صحافی سلیم شہزاد نے ایک خبر رپورٹ کی۔ 29 مئی کو وہ لاپتہ ہوئے اور 31 مئی کو ان کی تشدد زدہ لاش ملی۔

اس واقعے کے بعد پاکستان کا میڈیا چپ نہیں بیٹھا۔ میڈیا میں سلیم شہزاد کے قریبی دوستوں نے کھل کر اپنی بات کہی اور انگلی اداروں کی جانب اٹھائی گئی۔ جب جواباً سلیم شہزاد کی صحافتی اقدار کو سوالات کی زد میں لایا گیا تو چار و ناچار میڈیا کے رہنماؤں، سینیئر صحافیوں کو واضح سٹینڈ لینا پڑا۔

یہاں تک کہ 16 جون کا تپتا جلتا دن آ گیا، جب بغیر کسی پس و پیش کے پاکستان کا میڈیا پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گیا۔ ہمارے صحافیوں نے وہیں دھوپ کی تمازت میں لائیو شوز کیے، نعرے لگائے، سیاست دانوں کو کچھ شرم دلائی، انصاف کی کنڈی کھڑکائی اور اپنی فریاد عالمی تنظیموں تک پہنچائی۔

اس وقت کی اپوزیشن میاں نواز شریف کی قیادت میں ان صحافیوں سے ملنے پہنچی۔ ظاہر ہے ایسے دھرنے اپوزیشن کے لیے پکی پکائی کھیر ہوتے ہیں لیکن دلچسپ یہ کہ صحافیوں کے بگڑے تیور دیکھ کر اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کے ارکان بھی صحافیوں سے ملنے پہنچے اور ان کے مطالبات سنے۔

اس برس سلیم شہزاد کا قتل واحد معاملہ نہیں تھا جس سے صحافیوں کو تشویش تھی۔ سلیم شہزاد کے قتل سے چار ماہ قبل کراچی میں صحافی ولی خان بابر کو قتل کیا گیا تھا۔ صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے پے در پے کئی واقعات کے بعد معاملہ دھرنے تک پہنچا تھا۔

اس دھرنے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا عروج چل رہا تھا، عوام کی اکثریت کی مکمل حمایت میڈیا اور صحافیوں کے ساتھ تھی، پبلک میں پاکستان کے صحافیوں کا امیج بہت شفاف اور قابل اعتماد تھا۔

24 گھنٹے کے اس دھرنے میں ملک کے صف اول کے صحافی بغیر کسی ذاتی انا یا پھر تیرا میرا کیے ایک آواز بنے۔ ایسی چلچلاتی گرمی اور حبس زدہ رات میں اپنے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے حکومت نے کمیشن بنا دیا۔

اگرچہ سلیم شہزاد کمیشن کی رپورٹ مایوس کن رہی۔ صحافی کیسے اندر ہی اندر بٹے ہوئے تھے، یہ قصے صحافی برادری کے اندر ہی اندر پلتے رہے۔ صحافت کا پھر بھی کچھ بھرم رکھا گیا، اندرونی چپقلش کی ہنڈیا بیچ چوراہے نہیں پھوڑی گئی۔

یہ کیا کم ہے کہ کسی نام نہاد صحافی نے ڈمی اخبار میں یہ خبر نہیں چھاپ دی کہ معاملہ لڑکی کا تھا اور ملوث افراد لڑکی کے غیرت مند بھائی ہیں۔ یا ہو سکتا ہے ایسا ہوا بھی ہو، تاہم میری نظروں سے ایسے کوئی بے ہوہ خبر نہیں گزری۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

11 برس کے اس عرصے میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، جنگ کے فریقین، فیصلہ ساز، ہمارے ادارے اور ان کی مصروفیات سب کچھ اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ ہم صحافی بھی اب وہ والے صحافی نہیں رہے جو یونین بازی سے حکومتوں کو آنکھیں دکھا لیا کرتے تھے۔

جو صحافی اتحاد سے اپنی سی منوا لیا کرتے تھے۔ وقت کے قصائی نے اپنی زنگ آلود چھری سے اس شعبے کی بھی ہڈی بوٹی کا قیمہ ایک ساتھ بنا دیا ہے۔

اب صحافیوں میں تکرار ہوتی ہے کہ اصل صحافی ہم ہیں تم نہیں۔ ہمارا شہید تمہارا ہلاک۔ ہمارا جبری لاپتہ، تمہارا خود ہی انڈر گراؤنڈ۔ ہمارے والا علاج کروانے باہر گیا ہے، تمہارے والا بھاگ کھڑا ہوا۔

ہمارے ہم خیال صحافی کو سچی صحافت کے باعث دھمکی ملی، تمہارے والے کا پیسوں کے لین دین پہ کوئی جھگڑا تھا۔ ہماری سائیڈ کی خاتون صحافی پہ ذاتی حملے نامنظور، تمہاری والی صحافی تو نشانہ بننے کی دعوت خود دیتی ہے۔ ہمارے صحافی کے گھر تک نہ جانا، تمہاری والی تو گھر والی نہیں، باہر والی ہے۔

یہ جملے میں جتنا ممکن ہو سکتا ہے ہلکے، دھیمے اور کم زہریلے کر رہی ہوں۔ ورنہ صحافی برادری کے بعض بڑے بینروں والے نام ایک دوسرے پہ طعنے، الزامات، رکیک جملے اور اوچھے حملے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

آج جتنا مذاق ارشد شریف کے فرار کا بن رہا ہے اس سے زیادہ لطیفے حامد میر کے گولیوں سے زخمی جسم پہ بنے ہیں۔ میں نے صحت یابی کے بعد حامد میر کی اسلام آباد واپسی پہ ان کے گھر جا کر انٹرویو لیا، اگلے دن سپریم کورٹ میں چند ایک دوست پوچھنے لگے، ’واقعی گولی لگی ہے یا ڈراما تھا؟‘

مصیبت یہ ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی اس دوڑ میں خود صحافی ملوث ہو گئے ہیں۔ اب انہیں کسی خفیہ ہاتھ کی ضرورت نہیں، صحافت کی بے توقیری کھلے بندوں جاری ہے۔

صحافی کل کوئی جلوس نکال لیں۔ یقین کریں اب پبلک ان کا تماشا دیکھنے تو آئے گی، لیکن ان کے نعروں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔

آج صحافیوں کے درجنوں گروہ ہیں، ڈھیروں یونینز ہیں، سینکڑوں کے حساب سے رجسٹرڈ صحافی ہیں لیکن عجیب معاملہ درپیش ہے کہ مذمت کریں تو کس کی، مرمت کریں تو کس کی؟

اس شش و پنج میں صحافی یہ ابہام جتنا جلدی دور کر لیں اتنا ہی اچھا ہو گا کہ ایسی گود جو ناز و نعم میں بگاڑ دے اور دشمن کی وہ گولی جو مار دے دونوں ہی بلائے جان ہیں، دنوں سے یکساں گریز کیجیے اور براہ کرم سیاست دانوں کی طرح آپ صحافی بھی فیورٹ بننے کی باریاں لینا بند کریں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ