سٹنگ آپریشن کی قانون اور صحافت کی نظر میں کیا حیثیت ہے؟

بعض تحقیقی مقالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ’سٹنگ‘ کا لفظ1930 میں امریکی عام بول چال سے مقبول ہوا، جس کو ’دھوکہ دہی‘ سے انجام پانے والے عمل کے معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا۔

26 اکتوبر 2017 کی اس تصویر میں پاکستانی صحافی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد صحافی احمد نورانی پر حملے کے خلاف کراچی میں احتجاج کر رہے ہیں(اے ایف پی)

’سٹنگ آپریشن‘ ایک عالمی اصطلاح ہے تاہم یہ اب پاکستان میں بھی میڈیا کی وجہ سے ایک عام لفظ بن چکا ہے۔ عوام کی اکثریت اس لفظ سے آشنا تو ہے، لیکن اس کا اصل مفہوم اب بھی کئی لوگوں کے لیے مبہم ہے۔

اس کا ثبوت ہمیں اس بات سے ملتا ہے کہ دو روز قبل جب ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے میزبان ایک ادارے کے کچھ اہلکاروں کی جانب سے تشدد کا شکار ہوئے تو متعلقہ چینل نے کہا کہ ’میزبان اپنے سٹنگ آپریشن کے دوران تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔‘

پس منظر

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ’سٹنگ آپریشن‘ کی اصطلاح کو 1973 میں مقبولیت ایک انگریزی سپر ہٹ فلم ’دی سٹنگ‘ سے حاصل ہوئی، جس میں دو دھوکہ باز آدمی لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان سے رقم بٹورتے تھے۔ اس فلم کو عوام میں اتنی پذیرائی ملی کہ بعد ازاں اس کو دس آسکر ایوارڈ بھی ملے۔

دی سٹنگ فلم کے تین سال بعد امریکہ میں 28 فروری 1976 کو آفیسر لیفٹیننٹ رابرٹ آرسکاٹ نے واشنگٹن ڈی سی کے محکمہ پولیس میں ’تھیفٹ سکواڈ‘ کے ساتھ مل کر ڈی سی میں غیر قانونی طور پر سرکاری وغیر سرکاری چوری شدہ سامان کو فروخت کرنے والےمافیاکو بے نقاب کرنا شروع کیا۔

اس مقصد کی خاطر رابرٹ نے اس علاقے کی مشہور ’کے‘ سٹریٹ میں ایک نقلی دفتر بھی کھول لیا۔ جہاں بعدازاں ایف بی آئی بھی ان کے ساتھ شامل ہوئی۔

 یوں اس ٹیم نے چوروں اور ڈاکوؤں کو پکڑنے کے لیے اپنی مشترکہ مہم کے لیے ’سٹنگ آپریشن‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے خود کو نقلی مافیا ظاہر کیا، جس کی تفصیل کافی طویل اور دلچسپ ہے۔

بعض تحقیقی مقالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ’سٹنگ‘ کا لفظ 1930 میں امریکی عام بول چال سے مقبول ہوا، جس کو ’دھوکہ دہی‘ سے انجام پانے والے عمل کے معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا۔

صحافت میں ’سٹنگ آپریشن‘ کی اصطلاح کے استعمال کی تاریخ نامعلوم ہے، لیکن دنیا کے مختلف ممالک کے میڈیا اداروں میں اس تکنیک کے ذریعے کرپشن کے کیسز کو بے نقاب کرنا موجودہ دور میں عام ہے۔

 ایک بھارتی مقالےکے مطابق، ہندوستان کے برعکس امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں سٹنگ آپریشن کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کا طریقہ کار مختلف ہے۔ ’ان ممالک میں سٹنگ آپریشن میں قانونی تکنیک اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے معلومات حاصل کیے جاتے ہیں۔‘

جنوبی ایشائی خطے کے حوالے سے ہندوستانی مقالے دعوی کرتے ہیں کہ یہاں کے میڈیا میں ’سٹنگ آپریشن‘ کا آغاز انڈیا کے ایک ویب سائٹ ’تہلکہ‘ سے 2000 میں اس وقت ہوا، جب اس ویب سائٹ کے لیے کام کرنے والے دو صحافیوں نے ’مفاد عامہ‘ کی خاطر سرکاری اداروں میں کرپشن کی تحقیقات کرنے کے لیے ان کی خفیہ ریکارڈنگ شروع کی۔

اگرچہ اس کام میں انہیں آغاز میں کافی شہرت اور پیسہ ملا، لیکن جب سرکاری انکوائری شروع ہوئی توصحافیوں پر الزام لگا کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر دھوکے سے معلومات لینے کی کوشش کی۔

پٹیالہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ وکالت کی پروفیسر ڈاکٹر میناکشی اپنے ایک آن لائن تحقیقی مقالے میں لکھتی ہیں کہ ’اس ویب سائٹ کے کیس میں انڈیا کے سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ اگر کوئی شہری ’مفاد عامہ‘ کے لیے ’سٹنگ آپریشن‘ کرنا چاہے تو ان افراد کو پابند بنایا جائے کہ وہ کسی ایسے آپریشن سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کر کے ان کی اجازت حاصل کریں۔ ’ورنہ یہ افراد اور ادارے اپنی ذاتی مفاد اور کمرشل مقاصد کے لیے بدنظمی پھیلائیں گے۔‘

ڈاکٹر میناکشی مزید لکھتی ہیں کہ ’اکثر ٹی وی چینلز ریٹنگ کے چکر میں اورکچھ نیا دکھانے کی دھن میں ’سٹنگ آپریشن‘ کرتے ہیں، ‘جو کہ مفاد عامہ سے زیادہ عوام کو تفریح دینے کی کوشش ہے۔‘

پاکستانی میڈیا میں سٹنگ آپریشن کی آمد

پاکستانی صحافت میں سٹنگ یا صحافتی چھاپوں کا سلسلہ پرنٹ میڈیا میں پہلے سے پایا جاتا تھا لیکن سابق صدر اور فوجی آمر جنرل مشرف کی حکومت میں جب الیکٹرانک میڈیا کا آغاز ہوا تو عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے ٹی وی چینلز پر سٹنگ آپریشن طرز کے پروگرام سامنے آنے لگے۔

ان پروگراموں میں کبھی خفیہ تو کبھی ظاہرے کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے کرپشن اور دھوکہ دہی کے واقعات کو عوام کے سامنے لایاجاتا رہا ہے۔

سرکاری دفاتر عوام کے پیسے پر چلتے ہیں، لہذا قانوناً ایسے دفاتر کی کوئی بھی چیز مخفی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن دوسری جانب کسی کی شخصی آزادی کو نقصان پہنچانا، اس کی خلوت میں مداخلت، یا اجازت کے بغیر اس کی ویڈیو بناکر عدالت کے فیصلے سے قبل ہی اس کی میڈیا ٹرائل کرنا قانون کی رو سے ایک غیر قانونی فعل ہے۔

قانون کے مطابق، ہر ملزم کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کا غیر متعصبانہ اور غیرجانبدارانہ مقدمہ چلے، کیونکہ قانون کی نظرمیں وہ تب تک بےگناہ ہے جب تک اس پر جرم عدالت میں ثابت نہ ہو۔

قانونی ماہرین کے مطابق کسی بھی شخص کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونے سے پہلے اس کو ملزم قرار دینا، عوام اور حکام کی نظر میں اسے مجرم ثابت کرنا نہ صرف ایک غیر قانونی فعل ہے بلکہ آئین کے تحت کسی بھی ملک کے شہری کو حاصل حقوق کی خلاف ورزی بھی تصور کی جاتی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل نے اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جہاں پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 19 میں اظہار رائے اور پریس کی آزادی کا ذکر ہے، وہیں آرٹیکل 14 میں کسی شخص کی عزت کو مجروح کرنے، اس کی پرائیویسی میں مداخلت اور کسی شخص سے ثبوت حاصل کرنے کے لیے اس کو اذیت پہنچانے کا ذکر بھی ہے۔

’فیصلہ سنانا عدالت کا کام ہے۔ بلکہ بعض لوگوں پر الزام کے باوجود وہ بعدازاں عدالتوں سےبری ہوجاتے ہیں۔‘

صحافت میں ’سٹنگ آپریشن‘ کی اصطلاح

 صوبہ خیبر پختونخوا کی پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے چیئرمین ڈاکٹر فیض اللہ جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صحافت میں سرے سے ’سٹنگ آپریشن‘ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔

’صحافت میں صرف ’انویسٹیگیٹیو جرنلزم‘ کی اصطلاح ہے، جس میں ایک رپورٹر نکتے اور کڑیاں ملا کر مختلف ذرائع سے معلومات اکھٹی کرتا ہے اور اس کی تصدیق کرکے ایک متوازن رپورٹ پیش کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’سٹنگ آپریشن کی اصطلاح کو اب تک ملٹری میں بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزائی نہیں ملی ہے، تو کیوں کر ہوسکتا ہے کہ صحافت میں اس کو کوئی جگہ ملے۔ ماسوائے جان کوخطرے کے صحافی کسی بھی حال میں اپنی شناخت خفیہ نہیں رکھتا۔ وہ خفیہ کیمرے سے کسی کی ریکارڈنگ ، آڈیو ریکارڈنگ یااس کی تصویر نہیں لے سکتا نہ ہی کسی کی پرائیویسی میں مداخلت کرسکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیض اللہ جان نے مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر ایک پولیس بھی کسی جگہ پر چھاپہ مارنا چاہے تو اس کے لیے اسے مجسٹریٹ سے وارنٹ لینا پڑتا ہے۔

بعض پاکستانی میڈیا چینلز سے مرعوب کئی نوجوان لڑکے لڑکیوں نے لکھنا اور ویڈیو رپورٹ بنانا شروع تو کیا لیکن صحافت کے اصولوں اور قوانین سے ناواقف ان ’سیٹیزن جرنلسٹس‘ پر کئی لوگوں کی زندگیوں اور عزت کو داؤ پر لگانے کی شکایات بھی سامنے آنے لگیں۔

کچھ ماہ قبل پشاور ہائی کورٹ میں سماجی شخصیت ارشد اقبال نامی ایک درخواست گزار نے ایسے افراد کے خلاف موقف اپناتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ’ایسے خود ساختہ اور بلیک میلر صحافی معاشرے کی بگاڑ کا سبب بنے ہوئے ہیں جو کچھ پیسوں یا ریٹنگ کی خاطر صحافت کے مقدس پیشے کو بدنام کر رہے ہیں۔‘

سماجی شخصیت ارشد اقبال نے درخواست کی موجودہ حیثیت بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ عدالت نے انہیں سماعت کا موقع دیا لیکن اس دوران پاکستانی میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 (پی ایم ڈی اے) جاری ہوا جس کے اغراض ومقاصد تمام قسم کے پاکستانی میڈیا کو ریگولیٹ کرنا اور انہیں صحافت کے اصولوں کا پابند بنانا تھا۔

اس آرڈیننس کے تحت کسی ویب کاسٹ، ویب سائٹ وغیرہ کا پی ایم ڈی اے کی اجازت کے بغیر آپریشن غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

معروف ٹی وی میزبان جاوید اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صحافت میں ہر خبر اور رپورٹ تحقیقاتی رپورٹ کا درجہ رکھتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ریسرچ کا عنصر نہ ہو تو یہ محض ’سٹینوگرافی‘ کہلائے گی۔ صحافی کبھی جج نہیں بنتا، نہ ہی کسی پر چور ہونے کا الزام لگاتا ہے وہ ثبوت اکھٹی کرتا ہے، حقائق سامنے لاتا ہے اور ایک متوازن رپورٹ پیش کرتا ہے۔‘

دوسری جانب پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے منسلک پروفیسر بخت زمان کا کہنا ہے کہ ’انویسٹی گیٹیو جرنلزم میں ایک صحافی خبر یا معلومات کی مختلف ذرائع سے تصدیق کرتا ہے، تاکہ ایک غیر جانبدارانہ رپورٹ تشکیل دے سکے۔ ایسا کرنے میں کبھی کبھی ہفتے، مہینے اور سال لگ جاتے ہیں۔ ’چھاپہ‘ مارنا، کسی کے کرپٹ ہونے کا فیصلہ صادر کرنا صحافت کے اصول نہیں ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر